انگریز دور کا پانی کی ترسیل نظام جو کو کسی زمانے میں راولپنڈی شہر میں انجینئرنگ ایک شاہکار تھا اب اس پائپ لائن کو بدلنے کام شروع ہو چکا ہے انگریزوں کی آمد سے قبل ہندوستان کے شہروں میں پانی کی ترسیل کا نظام کسی حد
تک تو موجود تھا اور اس ضمن میں ماچھی اور سقہ یہ ذمہ داری سر انجام دیا کرتے تھے وہ اپنی مدد آپ اور انفرادی حثیت یہ کام کر رہے تھے لیکن انگریزوں کے آنے کے بعد جب انہوں نے پنجاب پر قبضہ کیا
اور اس شہر میں فوج کا ہیڈکوارٹر منتقل کیا تو اس شہر کی اہمیت میں اضافہ ہو گیا۔ جس کی وجہ سے یہاں کئی سرکار کی جانب سے دی گئی سہولتوں کا اضافہ ہوا اس طرح یہاں پانی کی ترسیل کا ایک نظام لایا گیا راولپنڈی میں پہلا پانی کی ترسیل کے سب سے بڑے نظام سید پور روڈ کی موجودہ کالی ٹینکی 1924 میں دوسال کی قلیل مدت میں راولپنڈی میں پانی کی فراہمی کی غرض سے تعمیر کیا گیا اس وقت کے گورنر پنجاب”سر ویلیم میلکم ھیلے“ نے اپنی نگرانی اور ذاتی دلچسپی سے اس کی تعمیر کروائی۔ گورنر پنجاب سر ویلیم میلکم ھیلے نے لاہور کالج آف کامرس کی تعمیر بھی آپنے ہی دور میں مکمل کروائی۔ راولپنڈی شہر میں پانی کا ترسیلی نظام جو کہ سید پور روڈ راولپنڈی میں سینٹری ورکس حکومت پنجاب کی وساطت سے سینیٹری انجینئرکی زیر نگرانی تعمیر ہوا یہ اپنے وقت کا انجنیرنگ کا ایک شاہکار تھا۔اس کی تعمیر کا پر اس وقت تقریباً چھ لاکھ بیالیس ہزار ستاسی روپے لاگت ائی 25 جنوری1926 کو افتتاح کیا،اس میونسپل کمیٹی جسکے سرکردہ لیڈر موہن سنگھ اور انجینئر اے آر برومیج کا یہ منصوبہ ہے جس کو انہوں نے اپنی نگرانی میں مکمل کروایا اس وقت یہ گورنر پنجاب ولیم، ھیلے واٹر ورکس کے نام سے ہی جانا جاتا تھا جو بعد میں کالی ٹینکی کے نام سے مشہور ہو گیا ھیلے واٹر ورکس کے نام می تختی آج بھی اس عمارت پر موجود ہے۔
بر صغیر پاک وہند میں نوابادیات سے قبل دیہی اور شہری علاقوں میں پانی کی فراہمی کا نظام تھا مگر انگریز دور حکومت کا اس کو سرکاری سطح پرمتعارف کروایا گیا اس نظام جس پر آج بھی راولپنڈی شہر کے ایک خاص حصے کا انحصار ہے آج بھی اسی طرح فعال ہے،ھیلے واٹر ورکس جو کہ عام طور پر کالی ٹینکی کے نام سے مشہور ہے پانی کی فراہمی میں اضافے پر 1967ء میں پنجاب پبلک ہیلتھ انجینئرنگ نے سید پور روڈ کے دوسری جانب ایک اور واٹر ورکس ٹو کے نام سے تیرہ کنال اراضی پر پانی ذخیرہ کرنے کے لئیے زیر زمین چار اور ایک اوور ہیڈ واٹر ٹینک جو عام طور پر چٹی ٹینکی کے نام سے مشہور ہے تعمیر کروایا تھا کیونکہ ایوب دور میں کراچی سے حکومت کے دفاتر پنڈی منتقل ہوئے تو یہاں کی تعمیر و ترقی اور سہولیات کی فراہمی پر خاص توجہ دی گئی۔
جبکہ ھیلے واٹر ٹینک، کی اسٹیل ٹینک کو زنگ اور نمی سے محفوظ رکھنے کے لئیے اس پر کالا رنگ کردیا اور وہ ”کالی ٹینکی“ کے نام سے مشہور ہوکر علاقے کی شناخت بن گئی دلچسپ بات یہ ہے کہ برطانوی دور حکومت میں دریائے کورنگ سے پانی کی ترسیل کے لیے اس وقت پانی سیمنٹ کے ٹینک میں جمع کرنے کے بعد 13 کلومیٹر دوری سے یہاں تک پانی پہچانے کے لئیے کشش ثقل (گریویٹی)کو مدنظر رکھتے ہوئے 56انچ کی واٹر سپلائی لائین سے خودکار طریقے سے یہاں پہنچتا تھا برصغیر میں چار ٹرباینیں تھیں جن میں دو بمبئی اور دو کالی ٹینکی پر لگی ہوئی تھیں یہ پانی کا ترسیلی نظام 2005 تک فعال رہا ہے اور سیمنٹ سے بنی یہ پائپ لائن ابھی تک ٹھیک حالت میں موجود ہیں
اب تقریباً 20 سال گزرنے کے بعد حکومت پنجاب نے اس پانی کی سپلائی کو ایشیائی ترقیاتی بنک کے تعاون بدلنے کا فیصلہ کیا ہے اس پر تعمیر کا کام شروع ہو گیا ہے اور اس پر راول فلٹریشن پلانٹ اسلام آباد سے آنے والی 56 انچ قطر کی سپلائی لائن کو اب مختلف جگہوں سے کھود کر اس میں 36 انچ قطر کی پی وی سی پلاسٹک کی پائپ لائن اس میں ڈالی جائے گی اور اس کے علاوہ راولپنڈی کے میونسپل پانی کی سپلائی والے فلٹریشن پلانٹ کی اپ گریڈیشن بھی اس میں شامل ہے انگریز دور کے اس سپلائی لائن کے حالت اب بھی اس قدر بہتر ہے کہ اس میں ہی نیا پائپ ڈال کر اس کو پھر سے قابل استعمال بنایا جا رہے اور ابھی بھی اس میں پانی کی ترسیل کے لیے کشش ثقل(گریویٹی) پر ہی انحصار کیا جائے گا۔