کالج کی دوستی‘ہمیشہ ساتھ نبھائے

تحریر:شاہد جمیل منہاس

آج کی میری یہ تحریر ہر اُس دوست کے نام، ہر اُس شخص کے نام جو دوستی کو واقعی ایک خاص رشتہ سمجھتا ہے۔ آج یہ کالم لکھتے ہوئے ماضی کے تمام بند دریچے وا ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ آج سے تقریباََ 20برس قبل کی بات ہے جب میں گورنمنٹ کالج آف کامرس میں فرسٹ ائیر میں داخل ہوا۔ باسکٹ بال کی ٹیم کی سلیکشن ہوئی جس میں میں بھی شامل تھا۔ پنجاب بھر کے تعلیمی اداروں کے مقابلے کے لیئے ہماری ٹیم کو فیصل آباد جانا پڑا۔ اس ٹیم میں ہمایوں فر صدیقی سے میری ملاقات ہوئی پھر وہ ملاقات دوستی میں تبدیل ہوئی جو آج تک دن بدن پائیدار سے پائیدار ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ہمایوں سے دوستی ہونے کی دیر تھی کہ اُس نے میرا تعارف اپنے دوستوں میں کروا دیا اور یوں میں ہر روز ساگری سے کالج آتا اور کوئی دن ایسا نہ ہوتا کہ جب میں سیٹیلائیٹ ٹاؤن حیدری چوک کے پاس ایک محلے میں ان سب دوستوں سے مل کر نہ آتا۔ یہ سب دوست الگ الگ کالجز میں پڑھتے تھے مگر شام کو یوں محسوس ہوتا کہ جیسے ہم ایک ہی کالج اور ایک ہی کلاس میں زیرِ تعلیم ہوں۔ ان دوستوں میں ایک آدھ دوست کم شرارتی تھا باقی تو خُدا کی پناہ۔ جوشریف تھا اُس کا نام سنی ہے۔ جو آج ڈ ھیر سارے بچوں کا ابّا بن چُکا ہے مگر آج بھی اُسی طرح کا سیدھا سادھا آدمی ہے۔ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں میری اس تحریر کو سب قارئین اس طرح پڑھیں کہ جیسے اُن کے دوستوں کی بات ہو رہی ہو۔ کیوں کہ دوست اور دوستیاں ہر جگہ ایک ہی مقام رکھتی ہیں۔ مزید آگے چلتے ہیں۔ ہمایوں نے مجھے جن تموڑی نما(بھڑ)دوستوں سے ملوایا۔ ان میں شامل تھے عاصم، سنی، نعمان، حبیب عرف ببو، کاشی بٹ اور سب سے بڑی فلم ہرجن جو اپنی مثال آپ ہے اورکوئی وار خالی نہیں جانے دیتا۔ اس کا تعلق تو گلگت سے ہے مگرہر زبان اس کی زبان کے نیچے سے ہو کر آتی ہے۔ پنڈی میں ہے تو پنڈی وال ہے۔ کراچی میں ہے تو کراچی زندہ باد کر دیتا ہے۔ لاہور میں ہے تو لاہوریوں کی جان ہے۔ اور آج کل سب کی پہچان ہے یہ بظاہر چھوٹا سا ہرجن مگر کسی عالم چنے سے کم نہیں۔ اپنے کردار اور محنت کے حوالے سے۔ ہمایوں اورعاصم اکثر اس کو تڑتڑی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ہاں مگر ایک بات ہے ہرجن میری بہت عزت کرتا ہے اور یہ بات سب کو معلوم ہے۔ جب بھی بات ہوتی ہے تو مجھے کہتا ہے کہ اپنے تعلیمی ادرے میں مجھے نوکری دے دو تا کہ میں بھی تعلیم کے میدان میں اپنا نام روشن کر سکوں۔ مگر میرے ادارے میں اتنے قابل انسان کے لیئے نوکری نہیں ہے۔ ہاں البتہ میں کوشش کر رہا ہوں کہ کسی یونیورسٹی میں اسے نوکری دلوا دوں لیکن ایک بات بتاؤں کہ میں اور ہرجن جب بھی کسی سیرئیس ایشو پر بات کرتے ہیں تو عاصم اور ہمایوں درمیاں میں کولاکالی یعنی گڑھ بڑھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر یہ تو سب کو پتہ ہے کہ جیت ہمیشہ سچ کی ہوتی ہے۔ ہاں البتہ عاصم کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ اُس نے 20برس بعد وٹس ایپ گروپ بنایا جس کا نام ہے ”یاروں کی بیٹھک“۔ اس میں سب دوستوں کو شامل کر کے یہ ثابت کر دیا کہ ”دوستی ایسا ناطہ ہے جو سونے سے بھی مہنگا ہے“۔ آج ہمایوں دبئی میں خوش ہے اپنے تمام گھر والوں کے ساتھ۔ عاصم اپنی جنت نما ماں کے قدموں میں اور سب گھروالوں کے ساتھ یو-کے میں ہے۔حبیب اور کاشی بٹ راولپنڈی میں ہمارے ساتھ موجود ہیں۔ سنی بھی اپنی زندگی میں چار چاند لگا رہا ہے۔ مگرگروپ میں خاموش ہے ہمیشہ کی طرح۔ ہم نے کئی برسوں سے ایک دوسرے کو نہیں دیکھا مگر اس گروپ نے یہ ثابت کر دیا کہ جہاں انٹرنیٹ بے شمار تباہیوں کا سبب بن رہا ہے وہاں بے تحاشا خوشیوں اور کامیابیوں کا زینہ بھی ہے۔ آج ہم بظاہر ایک دوسرے کے پاس نہیں ہیں مگر حقیقت میں ایک دوسرے کے دلوں میں ہیں۔ ہر روز ایک دوسرے کو پرانی یادیں تازہ کروا کہ دل کا بوجھ ہلکا کرتے ہیں۔ اب یاد آتا ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر تعلقات ہر گز ختم نہیں کرنے چاہیے اس طرح رشتے ناپید ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اس گروپ میں انتہا درجے کی تنقید اور بحث ہوتی ہے۔ ہمایوں اور عاصم ہرجن کو سوئی چبو کر غائب ہو جاتے ہیں اور وہ مجھ پر برسنا شروع کر دیتا ہے۔ پھر اس تڑتڑی نے وہ ہنگامہ بھرپا کرنا ہے کہ قیامت صغرا پربا ہو جاتی ہے۔ میں چھوٹی چھوٹی کنکریاں پھینکتا ہوں ہرجن پر جسے عاصم ڈراؤن حملہ بنا کر ہرجن کو تپش دلواتا ہے اور ہمایوں چوبیس گھنٹوں میں ایک دفعہ گروپ میں آتا ہے اور شامل ہوتے ہی ان تمام ڈرون حملوں کو ایٹم بم بنا کر جنگ و جدل کا سماں پیدا کر کے غائب ہو جاتا ہے جیسے یہ کوئی آلہٰ دین کا چراغ ہو۔ لوجی ہمایوں چار وائس میسج کر کے آگ لگا کر اپنے دماغ کی سکرین پر ہم سب کی لڑائی یوں خوشی سے دیکھتا ہے کہ اس کا سارا دن خوشی خوشی گزر جاتا ہے۔ اگلے دن صبح اس کا ایک میسج آتا ہے ”صبح بخیر دوستو۔ اللہ پاک آپ کو سلامت رکھے اور ایسے ہی اتحاد والا بنائے رکھے“۔ ہمایوں، عاصم اور ببو آپ سب کی بڑی مہربانی آپ ہمارے درمیاں ایسا اتحاد نہ ہی قائم کریں تو بہتر ہو گا۔ مجھے اور ہرجن کو چار دن بعد معلوم ہوتا ہے کہ عاصم، ہمایوں اور حبیب ہر وقت یہ چاہتے ہیں کہ گروپ میں شغل لگا رہے اور زندگی یوں ہی ہنستے مسکراتے گزرتی رہے۔دوستو دراصل یہی زندگی ہے۔ آج ہم ایک دوسرے کے بظاہر قریب نہیں ہیں مگر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کے پاس ایک ہی میز پر تشریف فرما ہوں۔ انشااللہ بہت جلد ہم سب دوست اپنے تمام گھر والوں کے ساتھ ایک ہی پلیٹ فارم پر ملیں گے اور ایک بار پھر اس مختصر ترین زندگی میں دوبارہ خوش ہو جائیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں