کاشت کاروں کو درپیش مسائل /چوہدری محمد اشفاق

کسی بھی معاشرے کی ترقی کا زیادہ دارو مدار اس کی زراعت پر منحصرہو تا ہے اور جس ملک کا کسان یا کاشت کار خوشحال ہو گا ترقی اس کے قدم چومتی ہے ان ہی مسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان نے کسان پیکج کا اعلان کیا ہے جس میں بہت سی دوسری اشیاء کے علاوہ

کھادوں پر بھی سبسڈی کا اعلان کیا ہے جس میں ڈی اے پی پر پانچ سو روپے اور نائٹرو فاس پر 218 روپے کی سبسڈی کا اعلان کیا ہے گندم کا سیزن اپنے عروج پر ہے اور گندم کے سیزن کے شروع میں کھادوں کا استعمال بہت ضروری ہو تا ہے خاص طور پر ڈے اے پی کھاد تو نہایت ہی ضروری ہو تی ہے دوسری طرف پنجاب حکومت نے کاشت کاروں کو مفت بیج گندم مہیا کیا ہے مفت بیج ہر موضع میں سے صرف ایک کاشت کا فراہم کیا گیا ہے تحصیل کلر سیداں میں کل 99 موضع جات ہیں اور اس طرح ہر موضع سے درخواستیں طلب کی گئی تھیں ایک موضع سے زائد درخواستوں کی صورت میں اس موضع کی جامعہ مسجد میں تمام درخواست دہندہ کی موجودگی میں شفاف قرعہ اندازیاں کی گئیں جن کے تحت تحصیل بھر میں 99 کاشت کاروں کی مفت بیج فراہم کیا گیا ہے ایک کاشت کار کو 5 من بیج دیا گیا ہے اور ساتھ ہی حکومت نے محکمہ زراعت کے زریعے سستے بیج سبزیات فراہم کرنے کا منصوبہ بھی بنایا ہے جس کے تحت جو بھی مر د ،خواتین سبزیاں کا شت کرنے کے خواہشمند ہیں وہ یہ بیج صرف 50 روپے کے عوض خرید سکتے ہیں حکومت کاشت کاروں کی بہتری کے لیے مزید بھی بہت منصوبے بنا نے پر غور کر رہی ہے یہ سہولت صرف اسی صورت میں حاصل ہو سکیں گی جب ہر چیز پر چیک اینڈ بیلنس کا نظام موجود ہو گا اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا کسان پیکج سے عام آدمی استفادہ حاصل کر رہا ہے یا نہیں اور لوکل انتظامیہ اس پر کس حد تک عملدرآمد کر وا رہی ہے تو اس کا جواب نفی میں ملتا ہے حکومتوں کا کا م ہوتا ہے اعلان کرنا جب کہ عملدرآمد انتظامیہ کا کام ہو تا ہے لیکن تحصیل کلر سیداں میں صورتحال اس کے بالکل بر عکس ہے کیوں کہ ڈی اے پی وافر مقدار میں دستیاب نہیں ہے اور اگر کہیں غلطی سے مل بھی رہی ہو تو من مانے ریٹس پر ہی مل رہی ہے انتظامیہ صرف اس ڈیلرز کے خلاف ایکشن کرتی ہے جس کی کوئی شکایت ہو ہر شخص شکایت نہیں کر سکتا کیوں کہ یہ کام بہت مشکل مراحل سے گزر کر نا پڑتے ہیں جس کی وجہ سے اکثر افراد خاموشی میں ہی اچھائی سمجھتے ہیں باقاعدہ چیکنگ کا کوئی نظام مو جو د نہیں ہے اس کے علاوہ بھی کاشت کار وں کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے جیسے کسان کوئی کسی قسم کا بیج بازار سے خریدتا ہے تو اسے شاید تین ہزار روپے من کے حساب سے ملے گا لیکن جب وہ محنت کر کے اس بیج کو کاشت کرنے کے بعد شب و روز اس پر محنت کرنے کے بعد تیار کر کے جب بازار میں فروخت کرنے کے لیے لائے گا تو اس وقت اس کو ریٹ 15 سو رپے من ملے جو کہ سرا سر نا انصافی ہے آڑہتی حضرات نے بھی من مانے ریٹ مقرر کر رکھے ہیں آڑہتیوں کے متعلق بھی کوئی باقاعدہ قانون ہونا ضروری ہے مختصر یہ کہ کاشت کار حضرات کو ہر قدم پر مختلف قسم کے مسائل کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے ٹریکٹر مالکان نے بھی بوائی ،گہائی اور لوڈنگ کے من مانے ریٹ مقرر کر رکھے ہیں اور کوئی بھی ادارہ ان کو پوچھنے والا نہیں ہے ڈیزل جب 110 روپے لیٹر تھا تو بھی ان کے ریٹ ہائی درجہ کے تھے اور اب جب کہ ڈیزل کی قیمتوں میں بہت زیادہ کمی واقع ہو چکی ہے لیکن ان کے ریٹ اب بھی وہی چل رہے ہیں اسسٹنٹ کمشنرز کو اس بارے میں کوئی ضابطے اخذ کرنا چاہیں اور ٹریکٹر یونین کے ساتھ مٹنگ کر کے مناسب ریٹ مقرر کرنا چاہیے اور مقرر ہ ریٹس سے زائد وصولی کرنے والوں کے خلاف کاروائی عمل میں لانی چاہیے حکومت کو چاہیے کہ جہاں وہ کسانوں کے لیے مختلف پیکجز کا اعلان کر رہی ہے وہاں آڑہتیوں ،ٹریکٹر مالکان اور کھاد ڈیلرز کے متعلق کوئی واضع قانون سازی کرے تاکہ عام آدمی حکومت کی طرف سے اعلان کردہ سہولتوں سے فائدہ اٹھا سکے بصورت دیگر محض اعلانا ت سے کام نہیں چلے گا .{jcomments on}

 

اپنا تبصرہ بھیجیں