کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

بلاشبہ نوجوان نسل کسی بھی قوم و مذہب کا سب سے قیمتی متاع اوربیش قیمت و گراں قدر سرمایہ ہوتی ہے جو اس قوم و مذہب کے مشن کولے کر آگے بڑھتی ہے اور ہر دور میں نئی قوت نئی حرارت نئی امنگ اور نئے جوش و جذبے عطا کرتی ہے تاریخ گواہ ہے کہ قوموں کے ہر انقلاب میں نوجوان طبقے نے سب سے اہم کردار ادا کیا ہے نوجوانوں میں کام کرنے کا جذبہ اور انقلاب لانے کی امنگ ہوتی ہے ان کے سیلاب کے آگے دنیا کی کوئی طاقت نہیں تھم سکتی یہ کسی بھی دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار اور فولاد کی طرح مضبوط ثابت ہوتے ہیں حضور نبی پاکؐنے اپنی ظاہری زندگی کے آخر ی مشن کی سپہ سالاری بھی ایک نوجوان اسامہ بن زید کو سونپی جن کی عمر بیس سال سے کم تھی گویا آپؐ کی طرف سے آخری پیغام بھی یہی تھا میرے بعد نوجوان ہی میرے مشن کو حقیقی معنوں میں لے کر آگے بڑھیں گے محمد بن قاسم کو دیکھیں نہایت کم عمر برصغیر پاک وہند میں اسلام کا بیج بونے والے باہمت نوجوان ہی تھے ان کی ہیبت کا یہ عالم تھا کہ برصغیر میں جس طرف کا رخ کرتے تھے کلیساودیر کی دیواریں لرز کر زمین بوس ہوجاتی تھیں اسلام کی گذشتہ تاریخ ایسے باہمت بلند حوصلہ اور شجاع و بہادر نوجوانوں سے بھری پڑی ہے جن کا نام سنتے ہی کفر کے ایوانوں میں لزرہ طاہری ہو جاتا تھا ایک زمانہ تھا کہ اہل مغرب پر مسلم نوجوانوں کا ایسا دبدبہ طاری تھا کہ وہ سر زمین اسلام کی طرف سے آنے والی ہواؤں اور اُٹھنے والی گرد سے بھی خائف ہو جایا کرتے تھے کہ یہ سرزمین اسلام کی طرف سے آنے والی ہوائیں اور گردوغبار کوئی اچھا پیغام نہیں دیتیں اس اُٹھنے والے گردوغبار میں کہیں مسلم نوجوانوں کے لشکر نہ آتے ہوں مگر افسوس کہ آج معاملہ بہت اُلٹ ہو گیا ہے آج جاگنے بلکہ جگانے والے سو گئے ہیں بہادر بزدل اور بزدل بہادر بن گئے ہیں باہمت اور بلند حوصلہ آج پستی و ناداری میں جاگرے ہیں دنیا کے مظلو موں کو ظالموں کے پنجوں سے آزاد کرانے والے آج خود غیروں سے تحفظ اور پناہ ڈھونڈتے پھرتے ہیں دنیا پر حکومت کرنے والے آج محکوم بن گئے ہیں دنیا کو علم و حکمت کا درس دینے والے آج غیروں کی شاگردی اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں جن کے ناموس سے کفار اپنے بچوں کو ڈرا یا کرتے تھے آج ان کے بچوں کے دلوں میں کفار کی ہیبت اور دبدبے کا رعب بیٹھ گیا ہے جو کبھی ایک بہن کی پکار پر تڑپ اٹھتے تھے آج انہوں نے کشمیر فلسطین برما بوسنیا چیچنیا افغانستان عراق و لیبیا اور شام کی کروڑوں ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کو کس رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے آج لاکھوں کروڑوں مظلوم مسلمان بچوں بچیوں کے مستقبل کا محافظ کون ہے؟ کون ان کے حقوق کو پامال کر رہاہے؟کس جرم کی سزا میں ان پر بم میزائیل وغیرہ برسائے جا رہے ہیں آخر ان کا قصور کیا ہے اور ان سے کیا خطا سرزد ہوئی ہے کیا ان کا قصور یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے بچے ہیں یا یہ کہ وہ انگریز ی کے بجائے عربی اور دوسری زبانیں بولتے ہیں انسانی حقوق کی علمبر دار تنظیمیں کہاں ہیں کیا وہ اس انتظار میں ہیں کہ جب وہ مرکھپ جائیں توان کے کفن دفن کے نام پر ساری دنیا سے چندہ اکٹھا کیا جائے عالمی امن و سلامتی کے دعویدار اب کہا ہیں کوئی ہے جو ان مظلوموں کے حق میں آواز اٹھا ئے کوئی ہے جو ظالم کا ہاتھ روکے کوئی ہے مظلوم ماؤں بہنوں بیٹیوں کی آواز پر لبیک کہنے والا؟ کیا انسانیت دم توڑ چکی ہے کہا اخوت بھائی چارہ ہمدردی اور خیر خواہی کے جذبات مٹ چکے ہیں مسلم نوجوانوں کی غیرت کہاں ہے کیا دنیا کے دو ارب مسلمانوں کی غیرت دم توڑ چکی ہے کیا مسلم نوجوانوں کا جوش مارنے والا خون منجمد ہو
چکا ہے آج مسلم نوجوانوں میں نہ کوئی عمر ؓ ہے جو ظالم کے سامنے کلمہ حق بلند کرے اور حق و باطل میں تفریق کرے نہ ہی کوئی خالد و طارق ہے اور نہ ہی کوئی صلاح الدین ایوبی ہے جو سامرا جیوں سے جہاد کر سکے اور صیلبیوں اور صہونیوں پر قہر بن کر ٹوٹ پڑے نہ ہی ہم میں کوئی محمد بن قاسم ہے جو ایک مظلوم بہن کی آواز پر لبیک کہتا ہوا مندر کلیساودیر کے درودیوار ہلا کر رکھ دے ہماری متاع اجڑ گئی ہمارے کارواں لٹ گئے ان کے احساس زیاں کو دیمک کھا گیا ان کی غیرت مٹی میں دفن ہو گئی آخر کس کو آواز دیں کس کو للکاریں کن کے ضمیر جھنجھوڑیں کس میں کوئی جرأت اور احساس ہی باقی نہ رہا آج کے دور کی بے حیائی و بے پردگی، فحاشی و عریانی نے پورے معاشرہ کو بے حیا اور بے غیرت بنا کر رکھ دیا ہے یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے نوجوان قومی کرکٹ ٹیم اگر کوئی میچ ہار جائے تو خون کے آنسو روتے ہیں اور کھلاڑیوں پر ان کا خون کھول اٹھتا ہے مگر کشمیر و فلسطین کی ہزاروں ماؤں بہنوں بیٹیوں کی یہودیوں، عیسائیوں اور ہندوؤں کے ہاتھوں ہونے والی عزت کی پامالی پر ان کا خون کیوں نہیں کھولتا؟ ان کے چہروں پر مایوسی و غمی کی ہلکی سی لہر تک بھی پیدا نہیں ہوتی قبلہ اوّل بیت المقدس پر یہودیوں کا قبضہ دیکھ کر بھی ان کا خون جوش نہیں مارتا آج ہماری نوجوان نسل ٹی وی کے سامنے بیٹھی ہوئی کرکٹ میچ دیکھ رہی ہوتی ہے کھلاڑی جب سنچری مکمل کرتا ہے تو وہ خود اور میدان میں ہزاروں شائقین ہماری قوم خاص کرنوجوان نسل بے ساختہ سجدے میں گر پڑتی ہے اور رب کا شکر ادا کرنے لگتی ہے اس وقت رب یاد آتا ہے اور اپنے مسلمان ہونے کا احساس ہوتا ہے دوران میچ کتنی نمازین قضا ہوتی ہیں اس وقت نہ رب یاد آتا ہے اور نہ ہی احساس ہوتا ہے کفر ہمیں عملی میدانوں میں شکست دینے کی ترکیبیں کر رہا ہے غیروں نے ہمیں ہر میدان میں پچھاڑ دیا ہے ہم دنیا میں ہر جگہ قوموں کی صفوں میں شکست خوردہ میں عملی طور پر میدان میں غیروں سے پیچھے ہارے ہوئے ذلیل و رسوا ہو رہے ہیں متاع کارواں لٹ جانے کے بعد ہمارے نوجوانوں کے دل میں احساس زیاں باقی نہیں رہا اور یہی ہماری سب سے بڑی بدنصیبی و کم بختی ہے کھیلوں کے میدانوں میں شکست دے کر فائرنگ اور مٹھائیاں بانٹ کے جشن منا رہے ہوتی ہیں اور رب کا شکر اد اکرتے ہیں کہ اس نے عزت رکھ لی مگر قوموں کی صفوں میں ہر جگہ ذلیل و رسوا ہوتے ہوئے نہ عزت کا احساس ہے اور نہ ہی اس پر کوئی اپنے رب سے منا جات ہیں کہ یا رب!ہم دنیا میں ہر جگہ ذلیل و رسوا کیوں ہیں؟ غیروں کو کھیل کے میدان میں ہرانے کے لئے ہماری قوم کی طرف سے رب سے کیا کیا مناجات کی جاتی ہیں اور بڑے ہی خلوص سے دعائیں التجا ئیں کی جاتی ہیں مگر قوموں کی صفوں میں سربلند ہوئے اور اعلیٰ مقام حاصل کرنے کے لئے کوئی دعائیں التجائیں نہیں کی جاتیں آج ہمارے نوجوانوں کے جوش و جذبوں کی آگ صرف ہوس پرستی تک محدود ہو کر رہ گئی ہے کسی کو فیس بک، ٹویٹر،وٹس ایپ اور دیگر ذرائع سے فحش عریاں اور نیم عریاں فلمیں ڈرامے دیکھنے اور سکرینوں سے لطف اندوز ہونے سے دلچسپی ہے ضرورت اس امر کی کہ ہماری نوجوان نسل کو ایسی تعلیم و تربیت دی جائے کہ وہ قوم و ملت کا بھی کچھ سوچیں اور ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کے لئے اپنا کردار ادا کریں اور کچھ ایسے کارنامے سرانجام دیں جن سے قوم و ملک کا نام روشن ہو اور ہمارا ملک قوموں کی صفوں میں بلند مقام حاصل کر سکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں