عبداللّہ صاحب قہقہہ لگاتے ہوئے بولے! امریکہ کے صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کی کامیابی کے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہر ادنیٰ و اعلیٰ کے منہ میں یہی جملہ ہے کہ “ڈیل تو ہو کے رہے گی”۔
میں نے عرض کیا، جناب عمران خان مر جائے گا ڈیل نہیں کرے گا۔
عبداللہ صاحب خونخوار نظروں سے دیکھتے ہوئے گویا ہوئے۔ عمران خان تو واقعی ڈیل نہیں کرے گا ڈیل تو ٹرمپ یعنی امریکی صدر اور پاکستان کے موجودہ سیٹ اپ کے درمیان ہوگی۔ اور میرے چہرے کے سوالیہ نشان کو بھانپتے ہوئے بغیر تدارک کے بولے! جناب من، اب دنیا کی سب سے بڑی اور سب سے مہنگی ڈیل ہونے جا رہی ہے۔ ٹرمپ حلف برداری کے بعد اگر پہلا کام کوئی بھی کرے گا تو وہ یہ ہوگا کہ عمران خان کو رہا کیا جائے۔
میں نے بات کاٹتے ہوئے کہا، عبداللہ صاحب اور پاکستان اسے من و عن مان جائے گا۔
جمیل صاحب! یہی تو وقت ہوگا جب پاکستانی خزانے کی کنجیاں سنبھالنے والے قارون کے خزانے کی چابیاں سنبھالنے والوں سے تعداد میں زیادہ ہوں گے۔
کچھ دیر سکتہ کی کیفیت میں رہنے کے بعد گویا ہوئے۔ جمیل صاحب! آپ کو یاد ہے ایک ڈیل سعودیہ نے جنرل پرویزمشرف کے ساتھ کی تھی جس میں نواز شریف کو پاکستان سے ملک سے باہر بھیجا گیا تھا۔ اس وقت پرویز مشرف نے تین شرائط رکھی تھیں۔
ایک نواز شریف کے بدلے ملک کے خزانے میں اربوں ڈالر کا اضافہ کیا جائے۔
نمبر دو، نواز شریف پانچ سال سیاست میں آنے کی کوشش نہیں کرے گا۔
اور تیسرے نمبر پر تیل کے کنوؤں کی نہریں پاکستان کی طرف موڑ دی جائیں، یعنی بہت ہی ارزاں نرخوں پر عوام کو تیل کی فراہمی کی جائے۔
میں نے پہلو بدلتے ہوئے عرض کی مگر کیسے؟
جمیل صاحب! ٹرمپ جانتا ہے کہ پاکستان میں کس سے بات کرنی چاہیے. ٹرمپ سے مصالحتی انداز میں کہا جائے گا کہ حضور آپ دنیا کی سب سے قیمتی شخصیت کو مانگ رہے ہیں، یہ کروڑوں دلوں کی دھڑکن ہے۔ جس کے اپنے سائن کروڑوں کے بکتے ہیں، تو کیا آپ اسے مفت میں لے جائیں گے؟
ٹرمپ بادشاہ سلامت کی طرح کہے گا، مانگو عمران خان کے بدلے میں کیا مانگتے ہو؟
صاحب فراست کہیں گے, جناب ہماری صرف تین شرائط ہیں.
پہلے نمبر پر آئی ایم ایف سے لیا ہوا قرض یعنی سات بلین ڈالر کی فوری ادائیگی کی جائے تاکہ پاکستان کا قرض صفر ہو جائے۔
دوسرے نمبر پر عمران خان کی جان کی حفاظت کی ضمانت کے ساتھ عافیہ صدیقی کی واپسی کی جائے۔
تیسرے نمبر پر خلیجی ممالک سے تیل کی ارزاں نرخوں میں تیل کی فراہمی کی جائے۔
عبداللہ صاحب! تینوں شرائط بالخصوص, امریکہ سات بلین ڈالر کی ادائیگی کیسے کر سکتا ہے. اور جب پاکستان کا بچہ بچہ جب قرض سے آزاد ہو جائے گا تو ملک میں بہت خوشحالی آ جائے گی، جس سے موجودہ حکومت کو تقویت ملے گی اور پورے ملک میں اس حکومت کی تو بلّے بلّے ہو جائے گی۔ عافیہ صدیقی کی واپسی بھی سونے پہ سہاگہ ہے اور تیل کا سستا ہونا بھی ایک لعل و جواہر سے کم نہیں۔
آپ نہیں سمجھیں گے جمیل صاحب! اس ڈیل سے ساری دنیا کو میسج جائے گا کہ “ہاتھی مر کے بھی سوا لاکھ کا”. عمران خان جاتے جاتے بھی ملک کے بچے بچے کو قرض سے آزاد کرا گیا, عافیہ کی رہائی اور تیل کی فراہمی بھی عمران خان کے چاہنے والوں کے لیے بہت بڑا نعرہ ہوگا. تمام یو ٹیوب اور سوشل میڈیا اس نعرے کو اتنا گائے گا کہ یہ سچ لگنے لگے گا اور حکومت وقت کھمبا نوچتی رہ جائے گی۔
عبداللہ صاحب! ہمارا آئین، مقننہ، عدالتیں یہ سب ہوتا ہوا دیکھ کر آنکھ میں پٹی باندھ لیں گی۔
جمیل صاحب! آئینی ترمیم کس بلا کا نام ہے, ایک اور صحیح! اور پھر زور دار قہقہہ لگاتے ہوئے شعر سنایا۔
“تو ہے ہرجائی تو اپنا بھی یہی طور سہی
تو نہیں اور سہی, اور نہیں اور سہی”
اور اس طرح عمران خان تاریخ میں امر ہو جائے گا۔ رہی بات کہ امریکہ سات بلین ڈالر کیسے ادا کرے گا۔ وہ آپ فکر نہ کریں! عرب ممالک کے ساتھ مل کر امریکہ سات بلین ڈالر با آسانی ادا کر دے گا۔
ہماری بحث مزید بڑھتی میں نے سلام عرض کی اور جانے کی اجازت مانگتے ہوئے شعر کا مصرع کہا!
“اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا”
جواباً عبداللہ صاحب بولے “ڈیل تو ہو کے رہے گی”(جمیل احمد)