تحریر: ڈاکٹر عاطف افتخار
ہم ایک ایسے عہد میں داخل ہو چکے ہیں جہاں سچ اور جھوٹ کے درمیان لکیر تقریباً مٹ چکی ہے۔ کبھی جھوٹ زبان سے بولا جاتا تھا، اب یہ آنکھوں سے دکھایا اور کانوں سے سنایا جاتا ہے۔ یہ وہ دور ہے جہاں ایک تصویر، ایک آواز یا ایک ویڈیو لمحوں میں لاکھوں لوگوں تک پہنچ جاتی ہے، اور کوئی نہیں جانتا کہ یہ سب حقیقت ہے یا محض ڈیجیٹل تخلیق۔ ڈیجیٹل میڈیا نے جہاں معلومات کو آسان بنایا ہے، وہیں اس نے جعلی حقیقتوں (Fake Realities) کا ایک نیا جہان پیدا کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر روزانہ ایسی تصاویر، ویڈیوز اور آڈیوز گردش کرتی ہیں جو بظاہر سچ لگتی ہیں مگر دراصل مکمل طور پر جھوٹ ہوتی ہیں۔ مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) کے اس دور میں جھوٹ بولنے کے لیے اب الفاظ کی ضرورت نہیں، بلکہ مشینوں کی ذہانت کافی ہے۔
جعلی دنیا کے نئے ہتھیار
ہم آج کے دور کے وہ گواہ ہیں جہاں آنکھوں دیکھا حال اور کانوں سنا فسانہ اب اعتبار کے لائق نہیں رہا۔اب جعلی تصویریں (AI Generated Images) بنانا چند سیکنڈ کا کام ہے۔جعلی آوازیں (Voice Cloning) اتنی حقیقت لگتی ہیں کہ اپنے قریبی عزیز کی آواز بھی پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے۔جعلی ویڈیوز (Deepfakes) ایسے دکھائی دیتی ہیں جیسے کوئی اصل شخص وہ بات کر رہا ہو — حالانکہ وہ ویڈیو سراسر نقلی ہوتی ہے۔یہ جھوٹ صرف کسی ایک ملک یا معاشرے کا مسئلہ نہیں۔ یہ ایک عالمی چیلنج بن چکا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ترقی یافتہ معاشروں نے اس خطرے کو پہچان کر تصدیق کے نظام بنا لیے ہیں، جبکہ ہمارے جیسے معاشروں میں جھوٹ ابھی تک سچ بن کر عام ہو رہا ہے۔
ہمارا روزمرہ جھوٹ سے بھرا ہوا ہے
کیا آپ نے غور کیا ہے کہ روزانہ واٹس ایپ پر کتنے میسجز آتے ہیں؟کوئی سیاسی بیان، کوئی ویڈیو، کوئی خبر، کوئی مذہبی ہدایت، یا کوئی ضروری اطلاع سب کچھ بغیر تصدیق کے۔ہم ان پیغامات کو پڑھے بغیر، سمجھے بغیر، فوراً آگے بڑھا دیتے ہیں۔اور یوں ہم خود جھوٹ کے پھیلاؤ میں شریک ہو جاتے ہیں۔میں اپنے پنڈی پوسٹ کے قارئین سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اب صرف ٹی وی یا اخبار پر آنے والی خبر ہی قابلِ شک نہیں، بلکہ آپ کے موبائل کی اسکرین، سوشل میڈیا کی ایپس، اور یہاں تک کہ بولنے والے لوگ بھی جھوٹے ہو سکتے ہیں ۔ نہ اس لیے کہ وہ جان بوجھ کر جھوٹ بول رہے ہیں، بلکہ اس لیے کہ وہ خود ڈیجیٹل جھوٹ کے شکار ہیں۔
جھوٹ کے شکار ہم خود ہیں
جھوٹ کے اس طوفان میں شکار ہونے والوں کی فہرست طویل ہے۔ہم خود، ہمارے گھر والے، ہمارے دوست، ہمارے طلبہ، ہمارے صحافی، حتیٰ کہ وہ اینکرز اور تجزیہ کار بھی جو سچ بولنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
آج ہر شخص ایک سِٹیزن جرنلسٹ بن چکا ہے۔ہر کوئی اپنے موبائل سے خبر بناتا، ویڈیو ریکارڈ کرتا اور سوشل میڈیا پر شائع کرتا ہے۔لیکن اس شہری صحافت میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ تصدیق کا عمل غائب ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ کسی جھوٹی ویڈیو کی بنیاد پر فسادات ہو جاتے ہیں، کسی جعلی بیان سے reputations برباد ہو جاتے ہیں، اور کسی فرضی خبر سے لوگوں کا اعتماد ختم ہو جاتا ہے۔
جھوٹ کی بنیاد پر قائم سچائی
ڈیجیٹل میڈیا کے جھوٹ کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ یہ جھوٹ کو سچ کی شکل میں پیش کرتا ہے۔ جب آپ کسی ویڈیو میں ایک سیاستدان کو کوئی بیان دیتے دیکھتے ہیں، تو آپ کا ذہن اسے فوراً سچ مان لیتا ہے۔لیکن ہو سکتا ہے کہ وہ ویڈیو مکمل طور پر جعلی ہو۔اب چونکہ تصویری ثبوت اور ویڈیوز کو حقیقت کا مترادف سمجھا جاتا ہے، اس لیے لوگ بغیر سوچے مان لیتے ہیں۔یہی وہ لمحہ ہے جہاں سے جھوٹ طاقت حاصل کرتا ہے جب اسے سچ سمجھ لیا جائے۔
ڈیجیٹل میڈیا کی نفسیات
تحقیقات بتاتی ہیں کہ جھوٹ سچ سے زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے۔کیونکہ جھوٹ میں جذبات، سنسنی اور حیرت زیادہ ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ لوگ سچ کی نسبت جھوٹ کو زیادہ شیئر کرتے ہیں۔اس نفسیاتی کھیل میں الگورتھم بھی کردار ادا کرتے ہیں۔سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز وہی مواد زیادہ دکھاتے ہیں جو زیادہ دیکھا، شیئر یا بحث کا باعث بنتا ہے۔یوں ہم ایک Echo Chamber میں قید ہو جاتے ہیں، جہاں صرف وہی چیزیں نظر آتی ہیں جو ہمارے جذبات کو بھائیں۔
اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟اب سوال یہ ہے کہ اس سب کے باوجود ہم کیا کر سکتے ہیں؟کیا ہم جھوٹ کے اس سیلاب کے سامنے بے بس ہیں؟نہیں، بالکل نہیں۔
ہم اگر چاہیں تو اپنے روزمرہ میں چند عادات بدل کر اس جھوٹ کے اثرات کم کر سکتے ہیں۔کسی بھی خبر یا ویڈیو پر فوراً یقین نہ کریں‘ خبر کا ماخذ (Source) دیکھیں یہ کہاں سے آئی؟ کس نے شائع کی؟‘تصاویر کی جانچ کے لیے“Google Reverse Image”یا“TinEye”جیسے ٹولز استعمال کریں‘ اگر ویڈیو مشکوک لگے تو آواز اور منہ کی حرکت کا ملاپ دیکھیں‘ کسی بھی مواد کو آگے بڑھانے سے پہلے“fact-checking”ویب سائٹس جیسے Soch Fact Check، Geo Fact Check، یا PILDAT’s PakistanFact سے تصدیق کریں‘یہ سب چیزیں آسان ہیں مگر شرط یہ ہے کہ ہم رک کر سوچیں‘ہمیں اپنی انگلیوں پر قابو پانا ہوگا، کیونکہ اب جھوٹ ”شیئر” کے بٹن سے پھیلتا ہے۔
شک اور سوال کا زمانہ
یہ دور ہمیں ایک نئی اخلاقی تربیت کا تقاضا کرتا ہے شک کرنا اور سوال کرنا‘جو کچھ بھی دیکھیں، سنیں یا پڑھیں اس پر سوال اٹھائیں‘کیونکہ اب حقیقت وہ نہیں جو آنکھ دکھائے، بلکہ وہ ہے جو تصدیق سے ثابت ہو۔
آج کا انسان ہر وقت کسی نہ کسی اسکرین کے سامنے ہے ‘ٹی وی، موبائل، لیپ ٹاپ یا ٹیبلٹ‘لیکن اس کے سامنے جو کچھ آ رہا ہے، وہ سب اس کے ذہن کو ایک خاص سمت میں موڑ رہا ہے‘یہ وہی سمت ہے جو جھوٹ گھڑنے والوں نے طے کی ہوتی ہے اس لیے ”ذہنی خود مختاری“ اب ایک نئی ضرورت ہے
اختتامی پیغام
ہم ایک ڈیجیٹل جھوٹ کے عہد میں جی رہے ہیں‘یہ عہد ہمیں دو کاموں کی دعوت دیتا ہے‘ایک شک کرنا اور دوسرا تصدیق کرنا۔ جو شخص تصدیق کے بغیر آگے بڑھاتا ہے، وہ جھوٹ کا حصہ بن جاتا ہے۔
اور جو تصدیق کرتا ہے، وہ سچائی کا محافظ بن جاتا ہے۔سچائی اب محض اخلاقی فریضہ نہیں رہی، بلکہ ڈیجیٹل عہد کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔اگر ہم نے یہ ذمہ داری نہ نبھائی تو آنے والی نسلیں سچ اور جھوٹ کے فرق سے ہی محروم ہو جائیں گی۔میں اپنے قارئین سے وعدہ کرتا ہوں کہ اگر آپ چاہیں تو اگلے کالم میں میں آپ کو بتاؤں گا کہ سچ اور جھوٹ میں فرق پہچاننے کے لیے کون سی ڈیجیٹل تصدیقی مہارتیں (Verification Skills) ضروری ہیں اور آپ انہیں کیسے سیکھ سکتے ہیں۔تب تک یاد رکھیں دیکھنے، سننے اور پڑھنے سے پہلے یقین نہ کریں؛ شک کریں، تحقیق کریں، اور پھر ہی آگے بڑھائیں۔