ڈھوک کنیٹ کے نوجوانوں کا مثالی کام

اگر ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا۔ اس مصرے کو سامنے رکھتے ہوئے یونین کونسل منیاندہ کی ڈھوک کنیٹ کے نوجوانوں نے اپنی مدد آپ 550فٹ رستے کو اپنی مدد آپ پختہ کر کے مثال قائم کر دی۔سابقہ نمائندوں نے اس علاقے کو نظر انداز کیا اور الیکشن 2018میں خمیازہ بھی بھگتا۔مگر موجودہ حکومتی نمائندوں نے اس علاقہ کو سابقہ روش کو برقرار رکھا ہوا ہے۔مین سڑک تو دور گلیوں پشتوں کو بھی پکا نہ کیاگیا۔چوتھا سال ہونے کے باوجود کوئی پیکج نہ دیا گیا۔آفرین ان نوجوانوں پر جنہوں نے نمائندوں کے لاروں پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ باہمی مشاورت سے اپنے مسائل خود حل کرنے کو ترجیح دی۔ بار بار مسائل ہائی لائٹ (High Light)کرنے کے باوجود شنوائی نہ ہوئی تو بلا آخر یہاں کے خدمت خلق سے سرشار نوجوانوں نے اپنی مشکلات خود حل کرنے کا ذمہ اٹھایا۔ کمر بستہ نوجوانوں نے نمائندوں کا منہ دیکھنے کے بجائے اس محاورے کو حقیقت کا روپ دھارنے کے لیے کہ (خداان کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں)کمر بستہ ہوگئے۔ کچھ عرصہ قبل ان نوجوانوں نے اپنے گھروں میں ایک ایک ڈونیشن بکس (Donation Box)لگا دیا۔ اس عہد کے ساتھ کہ ہم اپنی جیب خرچ، ایکسڑامنی اور اپنی استطاعت کے مطابق اس بکس میں رقم ڈالیں گے۔کچھ ہی ماہ میں اس اچھے کام کے ثمرات آنا شروع ہو گئے۔یوں ان بکس میں سے جو رقم نکلی گاؤں کی سیوریج لائن ڈالنے پر کام کا آغاز ہو گیا۔ جلد ہی پورے گاؤں میں سیوریج کا80فیصد کام مکمل کرلیاگیااور یوں دوماہ کے قلیل عرصہ میں 1200فٹ سے زائد لمبی سیوریج لائن گاؤں کے چاروں طرف ڈال دی گئی۔اس پروجیکٹ کی تکمیل سے ان نوجوانوں کے حوصلے اور بلند ہوگئے۔دوسرے مرحلے میں رستے کے دونوں طرف جہاں ضرورت تھی سیفٹی وال بنائی گئی جس پر تقریباً دو لاکھ کے قریب اخراجات آئے۔حال ہی میں تیسرے مرحلے پر کام کا آغاز کیا گیا اور550فٹ لمبا اور 10سے 12فٹ چوڑارستہ کنکریٹ سے پختہ کیا گیا جس پر تقریباً ساڑھے تین لاکھ(350000/-)روپے اخراجات آئے۔ اخراجات کم آنے کی ایک وجہ میٹریل کے علاوہ تمام تر مزدوری نوجوانوں نے فی سبیل اللہ کی۔حتیٰ کے کام کے دوران کھانے تک کے اخراجات اپنی جیب سے ادا کیے۔ادھر منتخب نمائندوں کی اگر بات کی جائے تو ہر موقع پر یاد دھانی کروانے کے باوجود لارے لپوں پر ہی رکھا گیا۔قلیل وقت میں اتنا کچھ کرنے کے باوجود ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ حکومتی نمائندے اس علاقے پر توجہ دیں گے یا نہیں۔مگر ادھر اہل علاقہ اور ویلفئیر انچارج عاطف حنیف کا کہنا ہے کہ اگر آپ نے اپنے محلے کی گلیوں اور رستوں کو خود ہی پختہ کروانا ہے تو پھر کسی کو ووٹ یا سپورٹ کرنے کا کیا فائدہ۔ دیکھنا یہ ہے کہ MPAصاحب بقیہ رستے کے لیے کوئی گرانٹ دیتے ہیں یا پہلے چار سالوں کی طرح فنڈ کا رونا روتے ہوئے لارے پر رکھتے ہیں۔مگر اب بھی اگر اس علاقے کی طرف توجہ نہ دی گئی تو بلدیاتی انتخابات میں آزالہ نہ ہو سکے گا۔سوائے مایوسی کے۔
اثر کرے نہ کرے سن تو لے میری فریاد نہیں ہے داد کا طالب یہ بندہ آزاد

اپنا تبصرہ بھیجیں