ڈولی کی رسم ماضی کا حصہ بن گئی

پالکی جسے دورحاضر میں ڈولی کے نام سے پکارا جاتا ہے یہ موٹے بانس کے دو ڈنڈوں سے لٹکی ہوئی ایک کھٹولی کا نام ہے پرانے وقتوں میں مہاراجے نوابوں کی بیگمات اور شہزادیاں اس ڈولی میں بیٹھ کر سیر سپاٹے کیا کرتی تھیں جسے دو کہار اپنے کندھوں پر اٹھا کر چلتے تھے کہار ہندوؤں کا ایک نیچ خدمتی فرقہ تھاجسکا کام پانی بھرنا, پانی پلانا, برتن مانجنا, ڈولی یا پالکی اٹھا کرچلنا ہوتا تھا تاہم موجودہ دورمیں میت کو جنازہ گاہ تک لے جانے کیلیے ایلومونیم کی بنی ایک دو ڈنڈوں والی چارپائی بھی ایجاد ہوچکی ہے اسے بھی ڈولی کہا جاتا ہے تاہم ان دونوں ڈولیوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ ایک ڈولی غم جبکہ دوسری خوشی کے موقعوں پر استعمال کی جاتی ہے تاہم جو ڈولی شادی کے موقع پر دلہن کی سواری کے لیے استعمال ہوتی ہے وہ عمومی طور پر مربع شکل کی بنی ہوتی ہے جسکے اردگرد پردہ نما ایک سرخ رنگ کا کپڑا لگا ہوتا تھا جسکے اندر بیٹھی سرخ جوڑے میں ملبوس دلہن باہر سے نظر نہیں آتی تاہم وقت کے گھومتے پہیہ کیساتھ اگر ہم اپنے ذہن میں پرانے رسم ورواج کی یاداشت کا البم کھولیں تو شادی بیاہ کے موقعہ پر ڈولی میں بٹھا کر دلہن کی سسرال رخصتی کی یہ رسم کبھی ہماری دیہی ثقافت کا ایک لازمی حصہ تھی ہم نے بچپن میں یعنی 80 کی دہائی میں شادی کے موقعہ پر دلہن کو ڈولی میں بیٹھ کر سسرال کے گھر رخصت ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اپنے گاؤں اراضی پنڈ کی مسجد میں بھی ایک ڈولی رکھی ہوتی تھی جسے گاؤں کی مسجد کے متولی بابا مسکین صاحب اپنی زیرنگرانی گاؤں میں شادی والے دن دلہن کی رخصتی کے وقت یہ ڈولی لے کرجاتے تھے دلہن اس ڈولی میں بیٹھ کر اپنے شوہر کے گھر جاتی تھی ڈولی پر سرخ رنگ کا کپڑا بطور پردہ لٹک رہا ہوتا تھا جب دلہن اس ڈولی میں بیٹھ جاتی تو اسکے بھائی اور قریبی رشتہ دار اسکی ڈولی کندھوں پر اٹھا لیتے اور اسے سسرالی گھر تک الوداع کر کے واپس گھر لوٹتے تھے چونکہ اس دور میں موجودہ دور کی نسبت خونی رشتوں میں چاہت کی چاشنی برقرار تھی اور برادری قریبی رشتہ داروں اور آس پاس کے گاؤں میں بیٹی کا رشتہ دینے کا رواج عام تھا اسی لیے شادی کے دن باراتیوں کی آمد اور رخصتی کا سفر پیدل ہی طے کیا جاتا تھا ہم بچپن سے ڈراموں اور فلموں میں یہ ڈائیلاگ اکثر سنتے آئے ہیں کہ بیٹی کی ڈولی ماں باپ کے گھر سے اٹھتی ہے جبکہ جنازہ سسرالیوں کے گھر سے تاہم موجودہ نفسانفسی کے عالم میں خانگی تعلقات میں کھچائے رشتوں کے تعین میں کار‘کوٹھی’ بنگلہ’اور بینک بیلنس کی خواہش نے ہر طرف لالچ و نفرت کے بیج بو دیے ہیں جسکی بدولت اب ہماری سوسائٹی میں میاں بیوی کا لازوال بندھن گچے دھاگے کی مانند ہوتا جارہا ہے جس سے خاندانی نظام پر اسکے منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں بہرکیف جب والدین کے گھر سے دلہن کی ڈولی اٹھتی تھی تو دلہے کا باپ یا بھائی خوشی سے اپنی جیب یا تھیلی سے چار آنے اور آٹھ آنے کے سکے نکال کر ڈولی کے اوپر ہوا میں اڑا دیتے تھے چھوٹے بچے ان سکوں کو حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کرتے اور وہ دھکم پیل میں سر دھڑ کی بازی لگا دیتے تھے جو بچہ جتنا زیادی پھرتیلا ہوتا وہ اتنے ہی زیادہ سکے چن لیتا تھا پھر بعد میں بچے ایک دوسرے کو خوشی سے بتاتے کہ میرے پاس اتنے سکے جمع ہوگئے ہیں پھربچے اگھٹے گاؤں کی دوکان پر جاتے اور وہ سکے دے کر دوکاندار سے ٹافیاں اور بسکٹ وغیرہ لے آتے تھے بعدازاں کاغذی نوٹ متعارف ہونے سے ایک روپے کے کاغذی نوٹ پھینکنے کا رواج عام ہوگیا اس دور میں دلہن کی رخصتی میں ڈولی کے استعمال پر مسجد کا متولی پچاس روپے وصول کرتا تھا تاہم اب ڈولی کی فیس 2000روپے مقرر کردی گئی ہے جو صرف مسجد کے متولی کا حق ہے اراضی پنڈ مسجد عائشہ صدیقہ کے موجودہ متولی محمد اشتیاق نے پنڈی پوسٹ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اب ڈولی مسجد میں رکھنے کی بجائے میں نے اپنے گھر میں رکھ لی ہے۔محمد اشتیاق کا کہنا تھا کہ اب چونکہ وقت بدل گیا ہے بارات اور دلہن کی رخصتی کیلیے ٹو ڈی کار یا پھر پچارو کا استعمال ہونے لگا ہے جسکی وجہ سے ڈولی میں دلہن کو بٹھا کر رخصتی کا رواج رفتہ رفتہ کم ہوتا جارہا ہے یہی وجہ ہے کہ اب شاذو نازر ہی شادیوں میں ڈولی لانے کا تقاضا کیا جاتا ہے تاہم جس کسی کو ضرورت ہو وہ خود ڈولی میرے گھر سے لے کر جاتا ہے اور خود ہی واپس دے جاتا ہے کیونکہ اب مہنگائی بہت ہے اور شادیاں بھی روز روز نہیں ہوتی اسلیے میں نے ڈولی کے استعمال کی فیس دو ہزار روپے مقرر ہے میرے اس سوال پر کہ پہلے تو فیس بہت کم تھی اب مہنگائی بہت ہے تو کیا لوگ ڈولی کا کرایہ دو ہزارروپے باآسانی دینے پر رضا مند ہوجاتے ہیں تو محمد اشتیاق نے تھوڑی خاموشی اختیا کرنے کے بعد اپنے ماتھے پر شکن ڈالے گھورتے ہوئے مجھ سے مخاطب ہوکر جواب دیا کہ لوگ شادی بیاہ کے موقعہ پر رقص وسرور بینڈ باجے پٹاخے اور ناچ گانے بجانے پر تو لاکھوں روپے پانی کی طرح بہا دیتے ہیں مگراس خوشی کے موقعہ پر جب میری باری آتی ہے تو ان میں سے اکثر گھرانے تو معقول پیسے دے کر خوش کردیتے ہیں لیکن بعض اس معاملے میں کافی کنجوسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہری جھنڈی دکھا دیتے ہیں تاہم کچھ کم ہی سہی مگر ہر کوئی شادی کے موقعہ پر کچھ نہ کچھ رقم دے دیتے ہیں جس سے میرے بال بچوں کی دال روٹی بھی چلتی رہتی ہے محمد اشتیاق نے مذید کہا کہ موجودہ دور میں ہمارے معاشرے میں شادی بیاہ کے موقعوں پر دلہن کی رخصتی کے حوالے سے گو ہماری ثقافتی روایات کے مطابق ڈولی کے استعمال کی رسم بتدریج دم توڑتی جارہی ہے تاہم نوجوان نسل کو پرانے رسم رواج سے روشناس کرانے اور اپنی دیہی ثقافت کی شناخت کو دوبارہ زندہ رکھنے کیلیے ہمیں پرانے رسم ورواج کو فروغ دینا ہوگا۔آخر میں محمد اشتیاق نے بڑے پرخلوص انداز میں چائے پانی کا پوچھا مگر میں انکا شکریہ ادا کرتے ہوئے واپس گھر لوٹ آیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں