ڈاکٹر سجاد حسین ملنسار شخصیت

مجھے یہ سن کر اور ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر سے مل کر بہت حیرت ہوئی کہ ایک معروف ڈاکٹر کو ادب سے اس قدر لگاؤ کہ میں ششدر رہ گیا۔ ہوا یوں کہ میری بڑی بہن جس نے ہمیں والدہ کی ساتھ مل کر پالا اور جوان کیا وہ بیمار ہوئی تو میں اسے کلر سیداں روڈ پر شاہ باغ ایک ہسپتال میں لیکر گیا جہاں میری ملاقات ایک نفیس، خوش اخلاق اور دھیمے لہجے کے مالک ایک ڈاکٹر سے ہوئی جن کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں میری مراد ڈاکٹر سجاد حسین ہے۔ یہ ان سے میری پہلی ملاقات تھی اور محسوس یہ ہوا کہ جیسے صدیوں کی دوستی ہو۔ میری ازل سے یہ عادت ہے کہ میں جب بھی کسی تہذیب یافتہ ہستی سے ملوں تو اپنی ایک کتاب یعنی تصنیف اسے ہر حال میں تحفے میں دیتا ہوں۔ میں نے اپنی کتاب ” لفظوں کی مالا” ڈاکٹر صاحب کو اپنے آٹو گراف کے ساتھ تحفے میں دی۔ یہ دیکھ کر ڈاکٹر صاحب فرمانے لگے میں کافی عرصے سے اس جگہ اپنا کلینک چلا رہا ہوں مگر آپ سے ملاقات نہیں ہوئی۔ میں نے کہا میں ہر ہفتے آتا ہوں اور باقی دن راولپنڈی میں شعبہ تدریس سے اور شام کو ریڈیو پریزینٹر کے طور پر اور ایک ٹی وی چینل پر ایک پروگرام کرتا ہوں۔ بس یہ سن کر ڈاکٹر سجاد نے مجھ پر عزت و احترام کے دریا بہا دیے۔ جب تک باجی کو ڈرپ لگی رہی مجھے اپنے کمرے سے ادھر ادھر ہونے نہیں دیا۔ کافی گپ شپ اور تعلیم اور ملکی مسائل پر بات ہوتی رہی۔ باتوں باتوں میں میں نے کہا اسی علاقے شاہ باغ سے تعلق رکھنے والی میری ایک کالج کی شاگرد سارہ ناصر نے 2010 میں سیف گیم میں پہلی پوزیشن حاصل کی اور پاکستان کی 1st woman gold madelist کا اعزاز حاصل کیا۔ بس یہ جملہ سننے کی دیر تھی، کہنے لگے سارہ میری بھتیجی ہے۔ اس کے بعد میرا ان سے تعلق مضبوط سے مضبوط ہوتا چلا گیا۔ جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ میں سب سے کم عمر شخض ہوں جس کی شخصیت پر ایم فل ہوا تو یہ جان کر بہت خوش ہوئے۔ آپ یقین جانیں میں نے اپنی زندگی میں اتنا محبت بھرا انسان بہت کم کم دیکھا ہے۔ مریضوں سے اتنے پیار سے بات کرتے کہ مریض انکی باتوں سے ہی صحت مند ہونا شروع ہو جاتے۔ میرے ہوتے ہوئے تقریباً دس سے زیادہ مریض انکے پاس آئے مجال ہے کہ انکا نرم مزاج دھیمہ لہجہ بدلا ہو۔ مجھے اس دن معلوم ہوگیا کہ یہ شخص اپنی دنیا میں بھی خوش اور آخرت میں بھی کامگار ہوگا کیونکہ یہ اللہ کی مخلوق سے انتہا کا پیار کرتا ہے۔ اگر میں اس پیار بھری ملاقات کو مکمل لکھنا چاہوں تو دس صفحات پر بھی میری تحریر ختم نہ ہو پائے گی۔ دریا کو کوزے میں بند کر کے آپ سے اجازت چاہوں گا وہ یہ کہ
”صندل کا درخت زندہ ہو چھاوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مر جائے تو خوشبو ”.

اپنا تبصرہ بھیجیں