ڈاکٹروں کے پرائیویٹ کلینک،کمائی کے مرکز

قارئین کرام! ملک خداداد پاکستان میں صحت کی سہولت عام پاکستانی کا خواب ہے، ہر سرکاری ہسپتال اور ڈسپنسری میں ادویات، مشینری کی قیمت اور تعینات ڈاکٹرز و سٹاف کو تنخواہیں و پنشن تو عوام کے ٹیکس سے دی جاتی ہیں لیکن ان سے عوام کو سہولت ملنا محال نظر آتا ہے، سرکاری ہسپتالوں میں تعینات تقریباً سبھی ڈاکٹر کے اپنے پرائیویٹ کلینک ہیں اور کئی انویسٹرز کے ہسپتالوں میں ٹھیکے پر کام کرتے ہیں، اسی لیے انکی توجہ سرکاری ہسپتال میں مریضوں پر دوران ڈیوٹی 8 تا 2 بجے کم ہی ہوتی ہے، مریضوں کو جھڑکیں دی جاتی ہیں، ایک کمرے سے دوسرے کمرے اور بعض اوقات پورے ہسپتال کے چکر لگوائے جاتے ہیں، جبکہ اس کے برعکس یہی ڈاکٹر صاحبان پرائیویٹ ہسپتال میں جلوہ گر ہوں تو مریض کو ذرا تکلیف نہیں ہونے دیتے اور سٹاف کو پورے پروٹوکول کا اہتمام کرنے کا حکم دیتے ہیں کیونکہ وہاں ان کو ہزاروں روپے ایک مریض سے میسر آ جاتے ہیں اور انکی جیب اسی طرح بھرتی ہے، مگر یہ سمجھنا مشکل ہوتا ہے کہ وہ اس طرح پیسے جمع کر کے جنت اپنے نامہ اعمال میں بھر رہے ہیں یا جہنم؟؟کچھ ایسے ہی حالات تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال گوجرخان کے ہیں جہاں ایمرجنسی میں ریفر کرنے کی سہولت بطریق احسن ہمہ وقت موجود ہے۔ اس کے ساتھ چائلڈ سپیشلسٹ، میڈیکل سپیشلسٹ، ڈینٹل سپیشلسٹ، الٹراساونڈ سپیشلسٹ، گائناکالوجسٹ کے کمروں کے باہر لائنیں ہوتی ہیں، تقریباً سبھی ڈاکٹر گوجرخان میں ہی واقع پرائیویٹ ہسپتالوں میں 2 بجے کے بعد دستیاب ہوتے ہیں اور سرکاری ہسپتال میں آنے والے مریضوں کو ہاتھ لگائے بغیر دور سے دیکھ کر پرچی پہ اپنے سالہا سال کے تجربے سے ادویات لکھ کر بھیج دیتے ہیں اور آرام نہ آنے کی صورت میں اپنے پرائیویٹ کلینک میں آنے کا ارشاد فرماتے ہیں جہاں وہ مریض کو ساری سہولیات بدرجہ اولیٰ فراہم کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں، تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال میں تعینات گائناکالوجسٹ (ماہر امراض زچہ و بچہ) کی بات کی جائے تو سبھی کے پرائیویٹ کلینک ہیں اور ایک محترمہ تو سرکاری رہائش کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ کلینک بھی اسی سرکاری رہائش میں چلاتی ہیں، جبکہ صبح کے وقت ایک پرائیویٹ ہسپتال میں بھی فرائض منصبی انجام دیتی ہیں مگر ان کا پیٹ ہے کہ بھرنے کا نام نہیں لیتا، معلوم نہیں اتنا پیسہ لے کر کہاں جائیں گی؟؟ سرکاری ہسپتال گوجرخان میں آنے والی حاملہ عورتوں کو چکر لگوائے جاتے ہیں، الٹراساونڈ کی تاریخ ڈلیوری کے بعد کی دے دی جاتی ہے، اندازے لگا کر ڈلیوری کے وقت کا تعین کیا جاتا ہے، ایسے حالات ہیں کہ ڈاکٹر رات کے وقت مریضہ کو کہتی ہے کہ ابھی ڈلیوری میں کافی وقت ہے اور اگلی صبح اس مریضہ کے ہاں بچے کی ولادت ہو جاتی ہے، سرکاری ہسپتالوں کے تھکا دینے والے چکروں سے تھک ہار کر خواتین انہی ماہرین زچہ و بچہ کے پاس پرائیویٹ ہسپتال و کلینک پہ جاتی ہیں اور وہاں ان سے بھاری رقم ہتھیا کر انکا اچھا علاج کیا جاتا ہے، نارمل ڈلیوری کو آپریشن میں بدل کر ڈبل رقم اینٹھی جاتی ہے اور لوگ ڈلیوری کے وقت عورت کی زچگی کے درد کو دیکھتے ہوئے اُدھار تک لے کر ان ٹھگوں کو دینے پر مجبور دکھائی دیتے ہیں۔۔ کیا یہ حلال و جائز کمائی کر رہی ہیں؟؟صبح دوپہر شام بس پیسہ پیسہ پیسہ، کب ان کا دوزخ بھرے گا؟؟ سرکاری ہسپتال میں ڈیوٹی سے غفلت برتنے والوں کی تنخواہ حلال ہے؟؟ مجبور لوگوں کوپرائیویٹ ہسپتالوں میں جانے پر مجبور کرنے والوں کی تنخواہ جائز ہے؟مجبور لوگوں سے ہزاروں روپے لے کر نارمل ڈلیوری کو آپریشن میں بدلنے والوں کی کمائی حلال ہے؟؟لیکن ہم بطور مسلمان سوچتے کب ہیں؟ ہم بحیثیت مسلمان حلال کھانا کب چاہتے ہیں؟ ہم مسلمان تو صرف نام کی حد تک ہیں باقی سارے کام غیرمسلموں والے ہیں۔۔ شاید غیرمسلم بھی ایسے کام نہ کرتے ہوں۔کسی نے کیا خوب کہا تھا
یہ وہ مسلم ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں میری بات
والسلام

اپنا تبصرہ بھیجیں