پاکستان کی تاریخ اور معاشرتی ڈھانچے میں ڈاکخانہ ہمیشہ ایک بنیادی ستون کی حیثیت رکھتا آیا ہے۔ گاؤں ہو یا شہر، قصبہ ہو یا پہاڑی بستی، ڈاکیہ اور ڈاکخانہ نہ صرف پیغام رسانی کے ضامن رہے بلکہ ایک سماجی شناخت اور رابطے کا ذریعہ بھی رہے۔ آج جب ڈیجیٹل دنیا نے ہمارے ذرائع ابلاغ بدل دیے ہیں، تب بھی ڈاکخانہ محض ایک ادارہ نہیں بلکہ ایک یادگار ورثہ ہے جس نے نسلوں کو آپس میں جوڑے رکھا۔ اسی تناظر میں “ڈاکخانہ ساگری” کی کہانی ہمارے سامنے آتی ہے جو نہ صرف ساگری کے لوگوں کی پہچان ہے بلکہ ایک ایسا ادارہ ہے جس کے ساتھ ہزاروں خاندانوں کی یادیں جڑی ہیں۔
ساگری ڈاکخانہ کی تاریخی جھلک
ساگری میں ڈاکخانہ کا قیام تقریباً ۱۸۳۰ میں عمل میں آیا۔ اُس وقت یہ چھوٹا سا قصبہ نہ صرف اپنی زرخیزی اور جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے جانا جاتا تھا بلکہ یہ علاقائی سطح پر روابط کا بھی مرکز تھا۔ ڈاکخانہ وقتاً فوقتاً مختلف جگہوں پر قائم رہا۔ ایک طویل عرصہ تک یہ سعید کیانی صاحب کے گھر سے ملحقہ عمارت میں کام کرتا رہا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ماضی میں افراد اپنی ذاتی جائیداد بھی عوامی خدمت کے لیے وقف کر دیتے تھے تاکہ ایک اجتماعی سہولت قائم رہ سکے۔
ڈاکخانہ ساگری محض خطوط اور منی آرڈرز کی ترسیل کا ادارہ نہیں رہا، بلکہ یہ مقامی لوگوں کی زندگی کا حصہ اور اُن کی شناخت کا استعارہ بن گیا۔
منتقلی کی تجویز اور عوامی مزاحمت
کچھ سال قبل محکمہ ڈاک نے ڈاکخانہ ساگری کو دوسری جگہ منتقل کرنے کی تجویز دی۔ یہ ایک حساس معاملہ تھا جس پر مقامی آبادی نے گہری تشویش کا اظہار کیا۔ ماسٹرمنورحسینشادصاحب نے بھرپور کوشش کی کہ یہ ڈاکخانہ اپنی اصل شناخت برقرار رکھے۔ انہوں نے ساگری بازار میں ہی متبادل دفاتر کا انتظام کرایا اور مقامی معاونین کا شکریہ ادا کیا۔ ان کا موقف تھا کہ ڈاکخانہ ساگری کو کسی صورت یہاں سے منتقل نہ ہونے دیا جائے کیونکہ یہ صرف ایک دفتر نہیں بلکہ ایک تاریخی ورثہ ہے۔
منورحسینشادکا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر محکمہ ڈاک بروقت کرایہ ادا کرے تو یہ مسئلہ کبھی پیدا ہی نہ ہو۔ یہ کوئی بڑی رقم نہیں ہے بلکہ صرف نیت اور ترجیح کی بات ہے۔
تاریخی ورثہ اور سماجی پہچان
یہ کالم نگار سمجھتا ہے کہ ساگری اور اس کے گردونواح کے دیہات کے باسیوں کو اس حقیقت کا شعور ہونا چاہیے کہ یہ ڈاکخانہ اُن کے لیے ایک تاریخی ورثے کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ صرف ایک سرکاری عمارت نہیں بلکہ اجتماعی یادوں اور روایتوں کا حصہ ہے۔ آج جب ہم کسی دیہی علاقے میں تعارف دیتے ہیں تو اکثر لوگ اپنے گاؤں کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتاتے ہیں کہ اُن کا ڈاکخانہ کون سا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر ڈاکخانہ ساگری نہ رہا تو ساگری اور اس کے ہزاروں باسیوں کا پتہ یا ایڈریس کیا ہوگا؟
توپ مانکیالہ اور سہولت سے محرومی
یونین کونسل ساگری کا سب سے بڑا اور تاریخی گاؤں توپ مانکیالہ آج بھی ڈاکخانے کی سہولت سے محروم ہے۔ یہ افسوس ناک حقیقت ہے کہ سیاسی عمائدین بارہا وعدے کرتے رہے مگر آج تک توپ مانکیالہ کے عوام کو یہ بنیادی سہولت فراہم نہ کر سکے۔ یہ ناکامی صرف ایک علاقے کی محرومی نہیں بلکہ ہمارے سیاسی اور انتظامی نظام کی کمزوری کی علامت ہے۔
ڈاکخانہ اور عوامی خدمات
اگر ہم تاریخ کے اوراق پلٹیں تو معلوم ہوگا کہ ڈاکخانے نے عوام کو کیا کچھ فراہم نہیں کیا:
• منی آرڈرز، جن کے ذریعے والدین اپنے بچوں کو رقم بھیجتے رہے۔
• خطوط، جن کے ذریعے بچھڑے رشتے اور خاندان جڑے رہے۔
• فوجی بیٹوں کے خطوط، جو سرحد پر ڈیوٹی دیتے وقت ماں باپ کے دلوں کو سکون پہنچاتے تھے۔
• بیرونِ ملک مقیم محنت کشوں کے خطوط، جن میں پیار، امید اور قربانی کی خوشبو آتی تھی۔
• پورے پاکستان اور دنیا بھر سے پیغام رسانی کا مربوط نظام۔
گو کہ آج کے دور میں واٹس ایپ، ای میل اور دیگر ذرائع نے خطوط کی جگہ لے لی ہے، مگر ایک “ڈاکیہ” کا انتظار اور ڈاکخانے کی پہچان اب بھی اپنی ایک الگ رومانویت رکھتی ہے۔
جدیدیت اور نئی ضرورتیں
دنیا بدل چکی ہے اور ڈاکخانے کے کردار کو بھی نئے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ آج ای-کامرس کے بڑھتے ہوئے رجحان نے پارسل اور اشیاء کی ترسیل کو ایک نئی جہت دی ہے۔ اگر پاکستان پوسٹ اپنی خدمات میں جدیدیت لائے، آن لائن ٹریکنگ، ایپ بیسڈ سسٹم، اور بہتر ڈیلیوری نیٹ ورک متعارف کروائے تو یہ ادارہ دوبارہ اپنے عروج پر جا سکتا ہے۔
ڈاکخانہ ساگری بھی اس سلسلے میں ایک ماڈل بن سکتا ہے۔ اس کے ذریعے یہ دکھایا جا سکتا ہے کہ ایک چھوٹا سا قصبہ بھی اگر جدید خدمات کے ساتھ جڑا رہے تو نہ صرف اپنی شناخت برقرار رکھتا ہے بلکہ ملکی معیشت اور عوامی سہولت میں کردار ادا کرتا ہے۔
سیاسی قیادت اور ذمہ داری
یہ امر افسوس ناک ہے کہ ساگری اور اس کے اطراف کے عوامی نمائندے ڈاکخانے کی حالت بہتر بنانے کے لیے کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھا سکے۔ نہ مناسب عمارت کا بندوبست کیا گیا اور نہ ہی بروقت سہولتیں فراہم کی گئیں۔ یہ رویہ صرف ایک ادارے کی بے قدری نہیں بلکہ عوامی ضرورت کی بے حسی ہے۔
مستقبل کی راہیں
ڈاکخانہ ساگری اور پاکستان پوسٹ جیسے ادارے دو بڑے راستوں کے سنگم پر کھڑے ہیں:
یا تو یہ ادارے اپنی اہمیت کھو کر تاریخ کا حصہ بن جائیں گے۔
یا پھر یہ جدید تقاضوں کو اپناتے ہوئے دوبارہ عوامی اعتماد اور سہولت کا ذریعہ بن سکتے
میری رائے میں دوسرا راستہ ہی بہتر ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں لاکھوں لوگ اب بھی انٹرنیٹ تک رسائی نہیں رکھتے، ڈاکخانے کا وجود ناگزیر ہے۔
نتیجہ
ساگری ڈاکخانہ ایک علامت ہے۔ یہ صرف خطوط اور منی آرڈرز کا مرکز نہیں بلکہ اجتماعی یادوں، شناخت اور ورثے کا حصہ ہے۔ اس ادارے کو ختم کرنے یا منتقل کرنے کے بجائے اس میں نئی جان ڈالنے کی ضرورت ہے۔ عوام کو بھی اس کی اہمیت کا احساس کرنا ہوگا اور سیاسی قیادت کو بھی سنجیدگی دکھانی ہوگی۔ اگر یہ ڈاکخانہ ختم ہو گیا تو نہ صرف ساگری بلکہ پورے علاقے کی شناخت پر ایک سوالیہ نشان لگ جائے گا۔
ڈاکخانے نے ہمیں رشتوں کی قربت دی، بیٹوں کی خیریت سنائی، اور دنیا بھر سے پیغام رسانی کا ذریعہ بنا۔ آج بھی یہ ادارہ بچایا جا سکتا ہے—شرط یہ ہے کہ نیت عوامی خدمت کی ہو اور ارادہ اس تاریخی ورثے کو زندہ رکھنے کا۔
کالم نگار: ڈاکٹر عاطف افتخار
مستقل عنوان: بیانیہ