پروفیسر محمد حسین
1965 ءکی پاکستان انڈیا جنگ کو60 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ یہ جنگ پاکستان کی تاریخ کا ایک درخشاں باب سمجھا جاتا ہے وہیں کچھ ایسے شواہد بھی ملتے ہیں کہ معاملات وہ نہیں تھے جو بیان کیے جاتے ہیں۔بظاہر یہ جنگ 6 ستمبر 1965 ءکو شروع ہوئی جب انڈیا نے پاکستان پر حملہ کرنے کے لیے بین الاقوامی سرحد عبور کی مگر م¶رخین کے مطابق یہ جنگ 26 اپریل 1965 ءکو شروع ہوئی تھی جب پاکستانی فوج نے رن کچھ کے علاقے میں کنجرکوٹ اور بیاربیٹ کے علاقے پر قبضہ کیا تھا۔ 30 جون 1965 ءکو دونوں ممالک نے جنگ بندی کے ایک معاہدے پر دستخط کردیے اور یہ معاملہ ایک بین الاقوامی ٹریبونل کے سپرد کردیا گیا۔جولائی 1965 ءمیں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور پاکستان کی مسلح افواج نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کو انڈیا سے آزاد کروانے کے لیے ایک گوریلا آپریشن شروع کیا جسے ’آپریشن جبرالٹر‘ کا نام دیا گیا۔مگر اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ پاکستان، بالخصوص کشمیر کی تاریخ کا المناک باب ہے۔ اور آپریشن جبرالٹر منتشر ہو کر دم توڑ گیا۔پاکستان کی فوجی قیادت نے آپریشن جبرالٹر کی ناکامی کے بعد آپریشن گرینڈ سلام شروع کیا جس کا مقصد انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں متعین انڈین فوج کی سپلائی لائن کاٹنے کی غرض سے ریل کے واحد رابطے کو منقطع کرنے کے لیے اکھنور پر قبضہ کرنا تھا مگر یہ آپریشن بھی وقت کے موزوں انتخاب نہ ہونے کی وجہ سے ناکامی سے دوچار ہوا۔عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ آپریشن، آپریشن جبرالٹر سے پہلے ہوجانا چاہیے تھا۔ آپریشن جبرالٹر کی ناکامی کے بعد آپریشن گرینڈ سلام محض اقدام خودکشی تھا۔25 اگست کو انڈین فوج نے دانا کے مقام پر قبضہ کرلیا۔ اب انڈین فوج مظفرآباد کے قریب تھی۔ پھر 28 اگست کو انڈین فوج نے درہ حاجی پیر پر قبضہ کیا۔اس وقت آرمی چیف جنرل موسیٰ کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا اور وہ انتہائی کرب کے عالم میں وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کے پاس پہنچے اور کہا کہ میرے جوانوں کے پاس لڑنے کے لیے پتھروں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔6 ستمبر 1965 ءکو انڈیا نے بین الاقوامی سرحد عبور کرلی، جس کی اطلاع ایوب خان کو صبح 4 بجے کے قریب ملی۔ اس کے بعد انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ کا باقاعدہ آغاز ہوگیا۔ پاکستان کے کچھ علاقے انڈیا کے اور انڈیا کے کچھ علاقے پاکستان کے قبضے میں آگئے۔ ایسے موقع پر صدر پاکستان فیلڈ مارشل ایوب خان نے مناسب سمجھا کہ وہ اپنے دیرینہ حلیف اور دوست عوامی جمہوریہ چین کے وزیر اعظم چو این لائی سے براہ راست مشاورت کریں۔چنانچہ 19 اور 20 ستمبر 1965 کی درمیانی شب، صدر ایوب خان پشاور سے ایک طیارے کے ذریعے بیجنگ پہنچے اور اگلی شب واپس آگئے۔ایوب خان نے چینی رہنماﺅں کو صورت کی تفصیلات سے آگاہ کیا اور انھیں بتایا کہ انڈیا نے کس طرح اپنی عددی قوت کے بل بوتے پر جنگی برتری حاصل کرنا شروع کردی ہے اور انڈیا کو کس طرح مغربی ممالک کی مسلسل حمایت حاصل ہے جو سوویت یونین کو ثالثی کا کردار ادا کرنے پرآمادہ کررہے ہیں۔ اگلے دن 20 ستمبر 1965 ءکو سلامتی کونسل نے ایک قرارداد منظور کی جس میں پاکستان اور انڈیا کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ 22 اور 23 ستمبر کی درمیانی شب جنگ بند کردیں۔اس مرحلے پر پاکستان نے وزیر خارجہ جناب ذوالفقار علی بھٹو کو سلامتی کونسل میں پاکستان کی نمائندگی کے لئے روانہ کیا تاکہ وہ سلامتی کونسل کے سامنے پاکستان کا موقف بیان کرسکیں اور اقوام متحدہ کو باور کروائیں کہ مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کیے بغیر جنگ کا خاتمہ ممکن
نہیں۔ذوالفقار علی بھٹو 22 ستمبر کو نیویارک پہنچتے ہی فوراً اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر پہنچے جہاں سلامتی کونسل کا اجلاس جاری تھا۔ اس موقع پر جناب بھٹو نے اپنی تقریر میں کہا کہ پاکستان پر ایک بڑے ملک نے حملہ کیا ہے اور اس وقت ہم اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ انھوں نے اعلان کیا کہ اپنی بقا کی خاطر اگر ہمیں انڈیا سے ایک ہزار سال تک لڑنا پڑا تو ہم لڑیں گے۔ ابھی ان کی تقریر جاری تھی کہ اسی دوران انہیں صدر ایوب خان کا ایک تار لاکر دیا گیا۔اس تار میں صدر ایوب خان نے اقوام متحدہ کی جنگ بندی کی قرارداد منظور کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اس تار کے مندرجات سلامتی کونسل کے ارکان کو پڑھ کر سنائے اور کہا کہ ان کا ملک جنگ بند کرنے پر آمادہ ہوگیا ہے لیکن اس کے باوجود اقوام متحدہ کو مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کرنا پڑے گا ورنہ پاکستان اقوام متحدہ سے الگ ہوجائے گا۔نومبر 1965 ءمیں انڈین وزیراعظم لال بہادر شاستری نے اعلان کیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے سوویت یونین جانے کے لیے تیار ہیں لیکن وہ کشمیر کے مسئلہ کے علاوہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہر نوع کے مسائل پربات چیت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ادھر پاکستانی وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو بھی ماسکو پہنچے اور انھوں نے کہاکہ اگرچہ شاستری کا بیان مثبت نہیں ہے تاہم اس بیان میں مذاکرات پر آمادگی کا عنصر پایا جاتا ہے۔ دسمبر 1965 ء میں صدر ایوب خان واشنگٹن روانہ ہوئے جہاں انھوں نے امریکی صدر جانسن سے بھی ملاقات کی اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا۔ایوب خان نے امریکی صدر جانسن کو باور کرانے کی کوشش کی کہ برصغیر کے معاملات میں سوویت یونین کو فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی اجازت دینا غیر دانش مندانہ فیصلہ ہوگا، مگر امریکا اور ان کے مغربی اتحادیوں کا خیال تھا کہ صرف سوویت یونین ہی عالمی سطح پر کسی ایسی محاذ آرائی کو روک سکتا ہے جس میں چین اور پاکستان ایک جانب ہوں اور سوویت یونین اور انڈیا دوسری جانب۔امریکا نے پاکستان کو یہ بھی باور کرایا کہ امریکا ویت نام کی جنگ میں بری طرح الجھاہوا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ چین کو برصغیر کے معاملات میں ملوث کرنا خطرے کا باعث ہوسکتا ہے۔ سوویت یونین بھی کسی صورت میں چین کے ساتھ کوئی جھگڑا مول لینا نہیں چاہتا۔ان دونوں عوامل نے سوویت یونین کو انڈیا اور پاکستان کے درمیان موزوں ترین ثالث بنادیا۔ ایوب خان امریکا سے مایوسی کے عالم میں واپس لوٹے اور جنوری 1966 کے پہلے ہفتے میں سولہ رکنی وفد کے ہمراہ روس کی جمہوریہ ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند پہنچے ان کے وفد میں وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو، وزیر اطلاعات و نشریات خواجہ شہاب الدین اور وزیر تجارت غلام فاروق کے علاوہ اعلیٰ سول اور فوجی حکام شامل تھے۔پاکستان اور انڈیا کے یہ تاریخی مذاکرات جن میں سوویت یونین نے ثالث کے فرائض انجام دیے،7 دن تک جاری رہے۔ اس دوران کئی مرتبہ مذاکرات تعطل کا شکار ہوئے کیونکہ انڈیا کے وزیر اعظم شاستری نے ان مذاکرات میں کشمیر کا ذکر شامل کرنے سے انکار کردیا تھا۔ان کے نزدیک یہ مسئلہ طے شدہ تھا اور یہ مذاکرات صرف ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ہورہے تھے جو حالیہ جنگ سے پیدا ہوئے تھے۔ پاکستانی وفد کا خیال تھا کہ ایسے حالات میں یہ مذاکرات بے مقصد ہوں گے اور پاکستانی وفد کو کوئی معاہدہ کیے بغیر واپس لوٹ جانا چاہیے۔مگر مذاکرات کے آخری ایام میں سوویت وزیر اعظم کوسیجین نے صدر ایوب خان سے مسلسل کئی ملاقاتیں کیں اور انھیں انڈیا کے ساتھ کسی نہ کسی سمجھوتے پر پہنچنے پر رضامند کرلیا۔ یوں 10 جنوری 1966 کو صدر ایوب خان اور وزیر اعظم شاستری نے معاہدہ تاشقند پر اپنے دستخط ثبت کردیے۔اس معاہدے کے تحت طے پایا کہ دونوں ممالک کی مسلح افواج اگلے ڈیڑھ ماہ میں
5 اگست 1965 سے پہلے والی پوزیشن پر واپس چلی جائیں گی اور دونوں ممالک مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کے منشور پر پابند رہتے ہوئے باہمی مذاکرات کی بنیاد پر حل کریں گے۔معاہدہ تاشقند پر دستخط صدر ایوب خان کی سیاسی زندگی کا سب سے غلط فیصلہ ثابت ہوئے۔ یہی وہ معاہدہ تھا جس کی بنا پر پاکستانی عوام میں ان کے خلاف غم و غصہ کی لہر پیدا ہوئی اور بالآخر ایوب خان کو اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا۔پاکستانی عوام کا آج تک یہی خیال ہے کہ پاکستان نے مسئلہ کشمیر کو تاشقند کی سرزمین پر ہمیشہ کے لیے دفن کردیا اور وہ جنگ، جو خود حکومتی دعوﺅں کے مطابق میدان میں جیتی جاچکی تھی، معاہدے کی میز پر ہار دی گئی۔
