چھانگا مانگا سے ضمیر کی آواز تک

پاکستان معرض وجود میں آنے کے بعد ہی مسلم لیگی قیادت آپسی اختلافات کا شکارہو گئی جو اس ملک کی سب سے بڑی بد نصیی تھی جو معاشی و سیاسی عدم استحکام کا باعث بنی اور اس کے بعد سے اب تک ہم اسی روش پر چلتے آ رہے ہیں اور پستیوں کی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں اسی کلچر سے تنگ آکر کییوں نے نئی جماعت کی بنیاد ڈالی کچھ ہم خیالوں کو شامل کر لیا پھر جماعتوں میں اقتدار کی جنگ شروع ہوئی تو منت سماجت وعدے وعید کر کے حمایت حاصل کی جانے لگی کیونکہ وہ دور رکھ رکھاؤ والا تھا روپے پیسے کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی تھی اس لیے دوستی یاری تعلق واسطہ سے بھی کام چل جاتا تھا آہستہ آہستہ یہ کلچر اپنے رنگ ڈھنگ انداز طریقہ کار بدلتا چلا گیا وقت گزرتے گزرتے 1977 کا زمانہ آگیا جب جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کیا جنرل صاحب نے جس وقت ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹا تھا اس وقت پیپلز پارٹی کا طوطی بولتا تھا انہوں نے اس کو ختم کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کے راہنماؤں اور کارکنوں پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے تاکہ وہ بھٹو کی پارٹی کو چھوڑ دیں وہ بھٹو کی محبت لوگوں کے دلوں سے نکالنے میں مکمل ناکام رہے پیپلز پارٹی کے ڈر سے انہوں نے 1985میں غیر جماعتی الیکشن کروائے جس کے نتیجہ میں محمد خان جونیجو ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے اور میاں محمد نواز شریف صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے 1988 میں جنرل صاحب نے اسمبلیاں توڑ دیں اور جماعتی بنیادوں پر الیکشن کروانے کا اعلان کیا اسی اثناء میں ضیاء صاحب طیارہ حادثے میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے ان کے جانشین جنرل اسلم بیگ نے اقتدار نہ سنبھال کر ایک بہت بڑی مثال قائم کی ملک کی بھاگ دوڑ سینٹ کے چیرمین محمد اسحاق کے سپرد کر دی انھوں نے وقت مقررہ پر جماعتی بنیادوں پر الیکشن منعقد کروائے پیپلز پارٹی کا مقابلہ کرنے کے لیے آئی ایس آئی کے سربراہ میجر جنرل حمید گل نے نو جماعتی اسلامی جمہوری اتحاد بنایا جس کے سربراہ غلام مصطفی جتوئی تھے لیکن ان میں سب سے زیادہ اہمیت کے حامل میاں محمد نواز شریف تھے کیونکہ وہ وزیر اعلیٰ پنجاب رہ چکے تھے اور اس وقت بھی نگران وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز تھے نو جماعتی اتحاد کے باوجود پیپلز پارٹی نے 94 سیٹیں حاصل کر لیں جبکہ آئی جے آئی نے صرف 56 نشستیں حاصل کر سکی باقی آزاد ممبران منتخب ہوئے پیپلز پارٹی نے آزاد ممبران کے ساتھ مل کر حکومت بنا لی اس کے بعد پنجاب کے وزیر اعلیٰ کا انتخاب تھا یہاں بھی آئی جے آئی کے لیے دشواری تھی تو نواز شریف آزاد ایم پی ایز کو چھانگا مانگا(یہ ایک مصنوعی جنگل ہے جسے انگریزوں نے ریل گاڑی کو لکڑی مہیا کرنے کے لیے خود لگایا تھا یہ لاھور سے ستر کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے یہ ضلع قصور کی تحصیل چونیاں کی حدود میں آتا ہے) کے ریسٹ ھاؤس میں لے گئے تھے انہیں وہاں ہرسہولت باہم پہنچائی اور ان کو ایوان میں اس وقت لایا گیا جس وقت ووٹنگ شروع ہوچکی تھی اس طرح وہ منتخب ہو گئے اس طرح یہ خریدو فروخت کا کلچر شروع ہو آج بھی جب ایسا کام ہوتا ہے تو لوگ اس کو چھانگا مانگا سے تشبیہ دے دیتے ہیں 1990 کے الیکشن میں تو نوٹوں کی بارش کر دی گئی تھی جس میں اربوں روپے آئی ایس آئی نے تقسیم کیے تھے جس کے سب سے زیادہ بینیفشری میاں صاحب تھے جس کے ثبوت مشہور زمانہ اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ میں سامنے آئے تھے اس کی تصدیق جنرل نے بھی کی تھی یہاں سے یہ کلچر شروع ہوا اور اب یہ جنگلوں سے منگلوں میں بدل گیا ہے پھر اس کے بعد تو دھڑا دھڑ یہ کام جاری و ساری ہے در
پردہ کام یہی ہوتا ہے لیکن نام بدل جاتا ہے اب آپ چاہے اسکو ضمیر کی آواز کا نام دیں یا ہوس کی آواز جو بھی ہو وہ بغیر سبب کے اور اچانک کبھی نہیں آتی یہ جو ضمیر کی آوازیں کبھی سندھ ہاؤس اور کبھی کسی ہوٹل کے بند کمروں سے آتی رہی ہیں اگر یہ واقعی اندر سے ہوتیں تو اپنے گھر یا اپنے حلقے سے آتیں اور سندھ ہاؤس اسلام آباد یا ایوان اقبال سے تو لوگوں کو سنائی نہ دیتیں اور نہ ہی یک زبان اور بیس جان ہوتیں اور نہ ہی ایک دن آتیں اس کے پیچھے وہی چھانگا مانگا سوچ کار فرما ہے مزے کی بات صرف ضمیر کی آواز پر کروڑوں روپے قربان کر کے ضمنی الیکشن لڑنا سمجھ سے باہر ہے ویسے بڑی شدت کے ساتھ ضمیر جھنجھوڑا گیا ہے اگر اتنی ہی شدت سے اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت کے خوف سے جاگتا تو شاید وہ سارے بغیر کچھ کھائے پیئے سجدوں میں پڑے ہوتے دنیا و مافیہا سے بے خبر لیکن یہ سارا ٹوپی ڈرامہ ہے کہ ہمارا ضمیر جاگ گیا یاہمارے ساتھ زیادتی ہوتی رہی ہمارے کام نہیں ہوئے یا جو کچھ ہمیں کہا یا بتایا گیا تھا اس کے مطابق یہ کام نہیں کر رہے یا یہ حکومت پاکستان کے مفاد میں نہیں وغیرہ وغیرہ یہ سب کچھ اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے بہانے ہیں تاکہ دوبارہ عوام میں جا سکیں جب تک اس کلچر کو روکا نہیں جاتا اس وقت تک ہمارے ملک میں سیاسی استحکام پیدا نہیں ہو سکتا ضمیر کے جاگنے کی سزا صرف ڈی سیٹ نہیں ہونی چاہیے بلکہ کم از کم دس سال کے لیے نااہل ہونا چاہیے تاکہ بعدازاں کسی اور کا جلدی جلدی ضمیر نہ جاگے اس میں عوام کو بھی اپنے حصے کا کام کرناہوگا کہ ضمیر فروشوں کو بڑے مارجن کے ساتھ شکست فاش دیناہو گی اس ضمنی الیکشن میں تھوڑا سا عوام نے حصہ ڈالا ہے لیکن یہ ناکافی ہے بلکہ بلا امتیاز پارٹی ان کی ضمانتیں ضبط ہونی چاہیں تاکہ پارٹیاں بھی ان کو ٹکٹ دینے سے پہلے سو بار سوچیں اس طرح عوام ہی چھانگا مانگا سے ضمیر کی آواز جیسی سیاست کا خاتمہ کر سکتی ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں