چک بیلی خان کو تحصیل بنانے کا وعدہ وفا ہوگا؟ 224

چک بیلی خان کو تحصیل بنانے کا وعدہ وفا ہوگا؟

تحصیل راولپنڈی کا شمار پنجاب کی چند بڑی تحصیلوں میں ہوتا ہے جسکی آبادی لاکھوں نفوس پر مشتمل ہے اتنی بڑی آبادی کے لیے ایک تحصیل کا ہونا جسکی وجہ سے انتظامی طور پر بھی بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ اتنی بڑی تحصیل جس میں کئی گاؤں دیہات بھی شامل ہیں ان سبکو لے کر چلنا انتظامیہ کے لیے بھی درد سر رہتا ہے اور یہاں کے باسیوں کو بھی دور دراز گاؤں دیہات سے اپنے کام کے لیے تحصیل راولپنڈی جانا پڑتا ہے جو انکے لیے کافی مشکل ہوجاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کا پورا پورا دن اس کام پر ضائع ہو جاتا کیونکہ شہر میں واقع تحصیل راولپنڈی عام دور دراز کے باسیوں کے لیے بہت دور ہے اس کے علاوہ انتظامیہ بھی اتنے بڑے علاقے کو سنبھال سکے بہت مشکل ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ بہت سے علاقے اس وجہ سے پیچھے بھی رہ جاتے ہیں اس پریشانی کو دیکھتے ہوئے تحصیل راولپنڈی کے باسی عرصہ دراز سے ایک الگ تحصیل کے قیام کے لیے مطالبہ کررہے ہیں انکا مطالبہ ہے کہ چک بیلی خان کو ایک الگ تحصیل کا درجہ دیا جائے تاکہ انکے کام انکی دہلیز پر ہوسکے انکو دور دراز شہر میں آنے کی پریشانی سے نجات مل سکے اس کے علاوہ راولپنڈی کی واحد تحصیل ہونے پر جو کام کی زیادتی ہے وہ بھی کم ہوسکے گی جس پر عرصہ 20 سال قبل انتظامیہ حرکت میں آئی اور لوگوں کے اس جائز مطالبے کو دیکھتے ہوئے چک بیلی خان کو سب تحصیل کا درجہ دیا گیا جس کا باقاعدہ سنگ بنیاد اُس وقت کے ڈپٹی کمشنر راولپنڈی قمر الزمان چوہدری نے 9 ستمبر 1992 کو رکھا اور وہاں پر سب تحصیل آفس کے لیے دفتر کا قیام بھی عمل میں لایا گیا مگر حکومتوں کی عدم توجہی کے بحث یہ سب تحصیل جس کا باضابطہ افتتاح ہو کر دفتر بھی تیار کیا گیا یہ آگے نہ بڑھ سکی اور سیاست کا شکار ہوگئی اور معاملہ اتنے برس گزر جانے کے باوجود وہیں کا وہیں پڑا ہے جس دفتر کو سب تحصیل کا نام دے کر تعمیر کیا گیا تھا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب وہ بھوت بنگلہ کی شکل اختیار کر چکا ہے اب جب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آئی تو یہاں سے منتخب ہونے والے وفاقی وزیر غلام سرور خان نے وعدہ بھی کیا تھا عوام سے کہ وہ چک بیلی خان کو تحصیل کا درجہ دلوائیں گے جس پر یہاں کے باسی کافی خوش کے تھے کہ ان کادیرینہ مطالبہ پورا ہونے کو ہے لیکن اب اس حکومت کے قیام کو بھی تین سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے مگر اس طرف دوبارہ توجہ نہیں دی گئی جس سے بظاہر یہی لگتا ہے کہ معاملہ دوبارہ لٹک گیا ہے اور یہ اس دور حکومت میں بھی ہونا مشکل لگ رہا ہے لیکن اگر اس دور حکومت میں وفاقی وزیر غلام سرور خان اپنا یہ کیا گیا وعدہ پورا کر دیتے ہیں اور چک بیلی خان کو تحصیل کا درجہ دے دیا جاتا ہے تو اس سے نہ صرف یہاں کے باسیوں کو سہولت ہوگی اور انکا دیرینہ مطالبہ پورا ہوگا اور انتظامیہ پر بھی جو کام کا بوجھ وہ کم ہوگا عوام کا کام انکی دہلیز پر ہوجایا کرے گا بلکہ اس سے غلام سرور خان کو آمدہ انتخابات میں بھی فائدہ ہوگا کیونکہ ماضی میں آنے والے حکمرانوں نے سوائے لولی پاپ کے کچھ نہیں دیا اگر وفاقی وزیر یہ دیرینہ مطالبہ اور مسئلہ لوگوں کا حل کر دیتے ہیں تو انکے ووٹ بنک میں بھی اضافہ ہوگا کیونکہ یہ یہاں کے باسیوں کا بنیادی مسئلہ ہے جو ماضی میں وعدوں اور دعوں کے باوجود حل نہیں کیا جارہا یہاں تک کے اس کے قیام کی منظوری اور دفتر کے قیام کے باوجود اسکو تحصیل کا درجہ نہیں دیا جاسکا۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں