چوہدری نثار کی ہچکولے کھاتی ہوئی سیاست

آصف شاہ،وطن عزیز کی سیاست میں اگر سیاستدان کے قول فعل میں تضاد نہ ہو تو وہ ایک بڑے اور دبنگ سیاست دان کہلوا ہی نہیں سکتے ‘گزشتہ الیکشن میں چار حلقوں سے کامیابی کے دعوے دار سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اپنی سیاسی زندگی کی تاریخی شکست کھائی لیکن وہ اپنی طرز سیاست کو بدل نہ سکے ان کی سیاسی لٹیاءدبونے والے تاحال ان کو موجودہ سیاسی نظام میں وزیر اعلی دیکھ رہے ہیںلیکن شائید پانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا ہے 2018 کے الیکشنوں میں صرف پی پی 10 سے کامیابی ملی عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشستوں پرپر ہار نے والے چوہدری نثار علی خان نے تاحال اس سیٹ سے عہدے کا حلف نہیں اٹھایا ہے اور نہ ہی وہ اس کا ارادہ رکھتے ہیں جس کا وہ کبھی کبھار برملا اظہار بھی کرتے نظر آتے ہیں ان کے کیخلاف حلف نہ اٹھانے کے حوالہ سے عدالت میں درخواست دائر کی گئی تھی یہ باتیں تو قانونی ہیں لیکن ہمارے ہاںقانون کس چڑیا کا نام ہے چوہدری نثار علی خان گزشتہ ایک سال سے جہاں وہ حلقہ سے تقریباکٹ کر رہ گئے ہیںلیکن انہوں نے اپنے ان مخصوص مقامی سیاسی لیڈران سے رابطہ تاحال رکھا ہوا ہے اور اب تو انہوں نے اظہار تعزیت کے لیے جانا معمول بنا لیا ہے لیکن اب کیا فائدہ جب چڑیاں چگ گئی کھیت ،،ایک اہم سال جو حلقہ کی عوام کو چب رہا ہے کہ چوہدری نثار علی خا ن اپنی شکست کا زمہ دار کچھ نادیدہ قوتوں کو ٹھہر رہے ہیں لیکن اگلے سوال پر حسب روایات اس کو گول کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مناسب وقت پر اظہار کرونگا ایسی طرح کی فلم انہوںنے ن لیگ کے ساتھ ڈالی تھی لیکن الیکشن میں اپنی سیاست کا دھڑن تختہ کروانے کے باوجودتاحال وہ سانپ پٹاری سے نہ نکال سکے جو انہوں نے نکالنا تھا ،اب اس حلقہ کی عوام کو بھی اسی بتی کے پچھے لگا دیا گیا ہے کیا چوہدری نثار علی خان اپنی سیاست کے پانچ سال اسی طرح نکال لیں گے یہ ایک سوال ہے جو اپنا جواب مانگتا ہے۔لیکن چوہدری نثار کی جیپ کے سامنے لڈیاں مارنے والے اب بھی اب بھی مختلف محکموں سے انکے نام پر کام باااسانی نکلوا رہے ہیں حلقہ پٹواری ہو یا محکمہ اینٹی کرپشن چوہدری نثار علی خان کے لگائے کے پودے اب تناور درخت بن چکے جن سے پھل وہ کھا رہے ہیں جو ان کے جلسے جلوسوں پر لاکھوں لگاتے تھے اس حلقہ میں ان کے سیاسی حریف غلام سرور خان بھی شائید ان کی سیاسی بصیرت کے آگے بس کر چکے ہیں اب ایک رخ کلرسیداں کی سیاست کی جانب جہاں تحریک انصاف کی مقامی قیادت دست گریباں نظر آتی ہے ،،مشہور محاورہ ہے کہ کھاپا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنا،،،حکومت تاحال عوام کو کچھ ڈیلیور نہ کر سکی ہے لیکن پارٹی کے اندر سیاسی کھینچا تانی نے ایک عجیب پوزیشن پیدا کر دی ہے گکھڑ ادمال روڈ کی افتتاحی تقریب میں تحریک انصاف کے لیے بھاگ دوڑ کرنے والے مکمل نظر انداز کر دیے گئے جس کا غصہ کارکنان سوشل میڈیا پر اتار رہے ہیں اور تمام تر الزامات کا سہرا راجہ ساجد جاوید کے سر ڈالا جا رہا ہے دوسری طرف راجہ ساجد جاوید ایک مکمل سیاسی کارکن اور جہاندیدہ ہیں ان سے ایسے بلنڈرز کی توقع نہیں ہے ان کا حق بنتا تھا کہ وہ یوسی کی مقامی قیادت کے زمہ یہ ایونٹ لگاتے اس یوسی میں راجہ فیصل زبیر خاکسار جیسے کتنے کارکنا ہیں جو اس وقت تحریک انصاف کے دستے کا حصہ تھے لیکن پارٹیاں بدلنے والے مفاداتی اس وقت بھاگ دوڑ سنبھال چکے ہیں راجہ ساجد جاوید کے ساتھ اس وقت ایسے لوگ موجود ہیں جن کا کلر سیداں اور اس کی یوسیز سے کوئی تعلق نہیںہے ایسے لوگوں کو نام نہاد لیڈر بنانا کہاں کی سیاست ہے دوسری طرف اس وقت کلرسیداں ایم سی میں مقامی قیادت کا فقدان نظر آرہا ہے جو لوگ پی پی دس سے تعلق رکھتے ہیں وہ اس وقت پردھان بنے ہوئے ہیںجبکہ جن کا ایم سی کلر سے تعلق ہے ان کو لاتعلق کر رکے رکھ دیا گیا ہے اس وقت مری سے چک بیلی چکری تک تحریک انصاف کو ویژن کہیں پر نظر نہیں آرہا ہے مرکزی قیادت سے لیکر مقامی سیاست دانوں تک سب اپنا اپنا ڈھول بجا رہے ہیں جبکہ وقتی مفاد کے لیے پارٹی میں آنے والے سائبیرین پرندے پھل کھانے میں مصروف ہیں کلرسیداں کی مقامی سیاسی قیادت کو یہ بات زہن میں ڈالنی ہو گئی کہ بلدیاتی الکشنوں میں بڑے خود کش دھماکے سے بچنے کے لیے انہیں اپنی حفاظتی سیاسی دیوار بنا نا ہوگی،اور اگر اس وقت ملک سہیل اشرف سامنے نہ آئے توتحریک انصاف اپنوں کے ہاتھوں دفن ہوگی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں