چوہدری نثار کی سیاست زوال پذیری کا شکار

آصف شاہ‘ نمائندہ پنڈی پوسٹ
موسم گرما کی شدت اپنے عروج پر ہے بالکل اسی طرح سے سیاسی درجہ حرارت بھی روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے سیاسی پارٹیوں کے جیالے متوالے اور کھلاڑی ایک دوسرے پر لفظی گولہ باری جاری رکھے ہوئے ہیں تمام سیاسی پارٹیاں ابھی سے ہی کامیابی کے دعوے کرتی نظر آرہی ہیں وہاں سیاسی جماعتوں کے اندر سے اختلافات کا لاوہ اب پھوٹ کر باہر نکلنے لگا ہے اس وقت این اے 59اور پی پی 10میں ن لیگ کے پلیٹ فارم سے قمرالسلام راجہ ،نذر عباس ،اور چیئرمین یوسی لوہدرہ نویدبھٹی میدان میں اتر چکے ہیں تو دوسری جانب چوہدری نثار کو چاہنے والے اس بات کا دعوی کرتے نظر آتے ہیں کہ راولپنڈی ضلع کے ٹکٹ چوہدری نثار علی خان کی جیب میں ہیں اور ان کی مرضی سے ہی تقسیم ہوں گے پارٹی میں یہ بحث بھی چل رہی ہے کہ ن لیگ کی قیادت چوہدری نثار علی خان کو گھر جا کے ٹکٹ دے اور اتنے ٹکٹس دے گی جتنی چوہدری نثار علی خان کی خواہش ہے لیکن اس کے برعکس حلقے سے اتنے امیدواروں کا سامنے آنا بھی ایک سوالیہ نشان ہے کیونکہ کہ چوہدری نثار علی خان کی دبنگ شخصیت کے سامنے کسی کی جرات نہیں تھی کہ کوئی کھل کر بولے وہ چاہے ان کا سپورٹر ہو یا پارٹی کا کوئی امیدوار لیکن سیانوں کا قول ہے جب بوری میں سوراخ ہوجائے اور ایک ایک دنا گرنا شروع ہوجائے تو ایک وقت بوری خالی ہوجاتی ہے اس وقت چوہدری نثار علی خان کے مدمقابل ان کے سپورٹر آگئے ہیں ان کو ٹکٹ ملے گا یا نہیں یہ الگ بحث ہے لیکن ان کے مدمقابل ٹکٹس کے لیے درخواست دینا یہ ایک ایسا یشیو ہے جو چوہدری نثار علی خان کی سیاست کو آہستہ آہستہ بریک لگا سکتا ہے اس کے علاوہ ان کے مدمقابل قمرالسلام راجہ نے بھی دونوں حلقوں سے کاغذات نامزدگی جمع کروا دئیے ہیں دوسری طرف چوہدری نثار علی خان کے چاہنے والوں کے منہ حیرت سے کھلے کے کھلے رہ گئے ہیں ان کے وہم گمان میں بھی نہیں تھا کہ قمرالسلام ان کے مدمقابل آسکتا ہے اس پر قمرالسلام راجہ کے خلاف سوشل میڈیا پر ایک طوفان بپا ہے اور ان کو طرح طرح کی باتیں سننے کو مل رہی ہیں ،لیکن وہ اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ میرا حق ہے کہ اپنی عوام کی نمائندگی کروں اور یہ حق کوئی نہیں چھین سکتا لیکن اب ایک رخ تحریک انصاف کی جانب جہاں ان دنوں امیدواران کو ٹکٹس جاری کا کے حوالہ سے اجلاس گزشتہ ایک ہفتہ سے جاری ساری ہے لیکن تاحال اس کا کوئی فیصلہ سامنے نہیں آسکا ہے شنید ہے کہ یہ سطور چھپنے تک فیصلہ عوام کے سامنے ہوگا لیکن جو افواہیں اس وقت گردش کر رہیں ہیں کے مطابق اگر ٹکٹس پارٹی فیصلوں اور پارٹی کے لیے دن رات ایک کرنے والوں کو نظر انداز کے کے دیے گئے تو اس رزلٹ بالکل ہی مختلف ہوگاجو نہ صرف تحریک انصاف بلکہ ہر سیاسی جماعت کا نقصان کرے گا کیونکہ پھر کوئی بھی لیڈر کھل کر پارٹی کے لیے کام نہیں کرے گا اس کو پتہ ہوگا کہ پارٹی کاطریقہ کار کیا ہے لہذا پانچ سال مکمل سونے کے بعد جاگ کر ٹکٹ لے لے گا،تحریک انصاف کی قیادت کیا فیصلہ کرے گی یہ آئندہ چند دنوں میں عوام کے سامنے آجائے گا اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا لیکن تبدیلی کی خواہاں نعرے لگانے والی پارٹی میں کیا ممکن ہے کہ ایک شخص کو تین تین چار چار ٹکٹس جاری کرے گی تو اس کا منشور کہاں گیا اور پھر کون سے تبدیلی جس کی بات کی جاتی رہی ہے اگر ٹکٹس من مرضی کے بندوں کو دینا مقصود تھا تو پھر اسلام آباد میں 126روز دھرنا دینے والے کارکنان اور لیدران کا کیا ہوگا یہ ایک سوال ہے جو سر اٹھا کر اس وقت تحریک انصاف کی قیادت کے سامنے کھڑا ہے اور اگر وہ اس بھنور سے بخوبی نکل جاتے ہیں پھر تحریک انصاف ایک بڑی اور حقیقی جماعت کے طور پر سامنے آئے گی اور اگر اس بھنور میں ان کی کشتی پھنس گئی تو پھر ان کی سیاست کا دھڑن تختہ ہوسکتا ہے اور جوق در جوق دوسری جماعتوں سے آنے والے موسمی سیاسی پرندوں کی واپسی بھی ایسے ہی ہو گی دوسری جانب اگر پیپلز پارٹی کی جابن نگاہ دوڑائی جائے تو گوکہ وہ اس وقت سیاسی طور پر شائید اتنی مضبوط نظر نہ آتی ہو لیکن انہوں نے جو چند ٹکٹس جار ی کیے ہیں وہ انتہائی خوش آئند ہیں گوکہ کہ پیپلز پارٹی میں بھی اس وقت دھڑے بندی موجود ہے لیکن وہ شائید اس طرح کھل کر سامنے نہیں آسکی ہے بہر صورت وطن عزیز کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا اور کون سے پارٹی اس الیکشن میں بھرپور کامیابی حاصل کرے گی یہ ایک سوال ہے جس کا جواب جولائی میں عوام کے سامنے آجائے گا لیکن اب کی بار باشعور عوام کو پرانے سیاسی نعروں کے بجائے اپنی آنے والی نسلوں کے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہو گااور ان کو پارٹی ،ذاتی اور برادری ازم سے نکل کر سوچنا ہوگا اگر عوام نے یہ موقع ضائع کر دیا تو پھر جہاں وہ اپنی آنے والی نسلوں کے مجرم ہوں گے وہاں اس ملک کے مستقبل کو مخدوش کرنے میں بھی ان کا ہاتھ ہوگا اور وہ کل اللہ کی عدالت میں اس کے جواب دہ ہونگے

اپنا تبصرہ بھیجیں