آصف شاہ
سیاسی ورکرز سیاسی پارٹی کے لیے ایک ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کی ایک ہی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے کام کی تعریف کی جائے اور اس کے لیے وہ اپنی پوری عمر بلکہ کچھ زیادہ جوشیلے اپنی جمع پونچی تک خرچ کر دیتے ہیں لیکن کہاوت ہے کہ خون دینے والے مجنوں اور ہوتے ہیں اور چوری کھانے والے اور‘ اس کا عملی ثبوت اس وقت ن لیگ کی سیاست میں بڑھ چڑھ کر نظر آرہا ہے گزشتہ ہفتہ اس کا تفصیل سے زکر کیا تھا اور ان کارکنان کو بھی زکر کیا تھا جنہوں نے ن لیگ اور بالخصوص چوہدری نثار علی خان کی سیاست کو چار چاند لگائے تھے لیکن ان بے چاروں کی اپنی سیاست کو ایسے کھڈے لائن لگا دیا گیا کہ ان کی سیاست کو ایک چاند بھی نصیب نہ ہوا مجھے صیح یاد ہے کہ موجودہ بلدیہ چیئرمین شیخ قدوس منتخب ہونے کے بعد ہر میٹنگ اور ملنے ملانے والوں سے یہ بات کرتے نظر آتے تھے کہ وہ نظریاتی کارکنوں کا ایک اجتماع بلائیں گے اور ان کو ان کا جائز مقام ان کو دیا جائے گا اور جو لوگ مفاد کے لیے آئے ہیں ان کو اس پارٹی پر قبضہ نہیں کرنے دیا جائے گا لیکن کامیابی کے بعد وہ شاید یہ بات بھول گئے یا پھر ان کو بھلانے پر مجبور کر دیا گیا ہے پارٹی کے اندر سے پرانے کارکن اب یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ان کے اپنے کام اور مفادات حل ہو رہے ہیں ان کو کس سے غرض لیکن کل الیکشن میں ہم بھی ان کو نہیں پہچانے گے جس طرح وہ آج ہمیں نہیں پہچان رہے ہیں کل تک جو لوگ ق لیگ کے ساتھ کھڑے ہوکر ن لیگ اور چوہدری نثار کی سیاست کے خلاف تھے آج وہی ان کے پہلو میں براجمان نظر ہیں اور اپنے مفادات کے لیے گن گا رہے ہیں نظریاتی اور پرانے کارکنوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ الیکشن کے نزدیک اگر اس طرح کا کوئی ڈرامہ رچا کر اس طرح کا کنونشن منعقدکیا گیا تو یہ ایک سیاسی چال ہوگی اور اس کے نتائج یقیناًخراب ہی ہوں گے دوسری طرف بلدیاتی انتخابات میں ن لیگ میں اختلافات کی جو ہوا چل رہی تھی اور اس وقت اس کو پس پشت ڈال کر بلدیاتی انتخابات میں کامیابی بھی حاصل کر لی گئی تھی لیکن اب اس کا اصل رخ سامنے آنا شروع ہو گیا کلرسیداں سے بھلاکر اور روات سے چک بیلی تک اب ان اختلافات نے سر اٹھانا اس کا سب سے بڑا ردعمل اس وقت یوسی بگا شیخاں سے سامنے آیا ہے جہاں پر وائس چیئرمین اور کونسلرز نے چیئرمین کے خلاف اکھٹے ہو کر ایک محاز کھول دیا ہے اس پر انہوں نے گزشتہ روز پنڈی پوسٹ فورم میں آکر اپنے تحفظات کا کھل کر اظہار کیا وائس چیئرمین کو کہنا تھا کہ ہمیں چیئرمین چوہدری عامر نے اس حد تک مجبور کر دیا ہے کہ دو سال کی طویل خاموشی توڑنی پڑی ہے ہم بھی منتخب عوامی نمائندے ہیں لیکن ایک شخص نے پوری یوسی کے منتخب نمائندوں کو یر غمال بنا لیا ہے جو اس کے بعد ناقابل بر داشت ہے کروڑوں کے ترقیاتی کام اس نے اپنی من مرضی سے کرائے ہیں اور اپنے سرکاری فنڈز کو اپنے زاتی منشاء سے خرچ کیا ہے مجھے اور منتخب کونسلرز کو پوچھا تک نہیں گیا ہے ہماری سیاست کا محور چوہدری نثار علی خان تھے اور آج بھی وہی ہیں لیکن انہیں براہ راست اس پر ایکشن لینا ہوگا دوسری طرف کہانی کچھ اور رخ دکھا رہی ہے جب چوہدری نثار علی خان نے منتخب نمائندوں کو پنجاب ہاوس بلایا گیا تھا تو وہاں پر وائس چیئرمین یوسی بگا شیخاں نے اپنے چیئرمین چوہدری عامر جمشید کے خلاف پنڈورا باکس کھولا تھا جس پر جب چیئرمین یوسی بگا سے جواب لیا گیا تو انہوں نے کھل کر کہا کہ یہ سب آپ کے مانیٹروں کا کیا دھرا ہے جس پر چوہدری نثار کے پوچھا کہ کون سے مانیٹر تو انہوں نے کہا راجہ لطیف اور شیخ ساجد الرحمن جس پر چوہدری نثار نے کافی غصے کا اظہار کیا اور کہا کہ آپ ان معاملات سے دور رہیں اور اب آپ کو کسی جگہ جا کر کام کرنے کی ضرورت نہیں اسی وجہ سے دونوں موصوف کسی بھی تقریب میں نظر نہیںآرہے ہیں لیکن عوامی حلقوں میں یہ بات بھی گردش کر رہی ہے کہ یہ چوہدری نثار علی خان کی سیاست کا دوسرا رخ ہے وہ اپنے کسی بھی کارخاص کے خلاف ایکشن نہیں لیتے صرف اور صرف پریشر کو کم کرنے کے لیے وقتی طور پر غصہ دکھاتے ہیں اور کچھ عرصہ کے بعد یہی موصوف پھر ایک نئے ولولے کے ساتھ پرانی حرکات سکنات کے ساتھ موجود ہوتے ہیں اب حلقہ کی عوام یہ بات برملا کہتے ہیں کل تک عوام کے اندر ڈھڑے بندیاں بنا کر اپنا الو سیدھا کرنے والوں کے خلاف ایک بڑی آواز سامنے آچکی ہے جو وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی جا رہی ہے یہاں یہ بات بھی قابل زکر ہے کہ اس پورے پینل میں زیادہ تر کونسلرزاب یہ بات کھل کر کہتے نظر آتے ہیں کہ اگر چوہدری نثار علی خان نے اس پر ایکشن نہ لیا تو پھر اس کا براہ راست ایکشن آمدہ الیکشن پڑے گا جس کی ذمہ داری ان پر اور ان کے کارخاصوں کی ہوگی اس حلقہ کی آئندہ کی سیاست کیا ہوگی کون مقدر کا سکندر بنے گا یا پھر وہی پرانا دھاک کے تین پات ہوں گے اس کے لیے وقت کا انتظار کرنا ہوگا اگر اس الیکشن سے پہلے عوامی اور دیرینہ کارکنان کو سامنے رکھ کر فیصلہ نہ کیا گیا تو یقیناًبرج الٹ بھی سکتا ہے
193