چوہدری نثار علی کا انتخابی حلقہ کا دورہ/ آصف شاہ

وطن عزیز میں سیاست کو اگر بے رحم کھیل کہاجائے تو بے جا نہ ہو گا مگر ہمارے ہاں معزز سیاستدانوں کے اس کھیل کی بدولت سے ان کی پہچان ہوتی ہے قارئین محترم نے متاثرین زلزلہ اور سیلاب کو دیکھا ہو گا اگر دیکھا نہیں تو سنا ضروہوگا لیکن آپ جن متاثرین

سے مل رہے ہیں ان کا تعلق سیاست کے متاثرین سے ہے آج آپ کو این اے 52کے متاثرین سے ملاتے ہیں سیاست کی دنیا میں چوہدری نثار علی خان کا نام ایک دبنگ سیاست دان کی پہچان سے جانا جاتا ہے لیکن جب ان کے حلقہ کی سیاست کو دیکھا جائے تو ایک مختلف رنگ نظر آتا ہے گزشتہ ہفتہ وہ اپنے حلقہ میں تشریف لائے اور شنید یہ تھی کہ کچھ ایسے معاملات جن کی وجہ سے سب نگائیں چوہدری نثار علی خان کیجانب ہیں وہ ان کو حل کر کے جائیں گئے اس وقت کلر سیداں میں میئر شپ کا الیکشن اپنی راہ تک رہا ہے جہاں پر ایک طرف شیخ قدوس اور ان کے مدمقابل حاجی اسحاق ہیں اگر کہا جائے کہ یہ مقابلہ وزیر اعظم اور چوہدری نثار کے درمیان ہے تو بے جا نہ ہوگا لیکن دورہ کلر سیداں میں انہوں نے منتخب ممبران کی اچھی خاصی کلاس لے لی او رکسی بھی منتخب نمائندے کو اپنے میڈیا سے خطاب کے دوران پنڈال میں داخل نہ ہونے دیا گیاوہ جو لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لیے منتخب ہوئے تھے وہ دورازے کھٹکٹائے رہے لیکن جب چوہدری نثار علی خان کہا کہ اس کا فیصلہ میں کروں تو بس بات ختم ایک بات تو اس سے ظاہر ہوتی ہے کہ جمہوریت کے نعرے اور دعوے صرف اور صرف نعروں کی حد تک ہیں اصل میں یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ اگر اصل جمہوریت سامنے آجائے تو پھر اس کا جواب دینا پڑتا ہے اور آپ عوام کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں لیکن یہ کیسے ممکن ہو کہ چوہدری نثار علی خان جیسا لیڈر عوام کو جواب دے کلر سیداں کی عوام کی وہ ویسے تعریف نہیں کرتے ان کو پتہ ہے کہ میرے حکم کو من عن مانے گئے یہ کہاں کی جمہوریت ہے اور کیا یہ حسن جمہوریت ہے؟ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے اسی دن انہوں نے یوسی لوہدرہ میں منتخب نمائندوں سے بھی خطاب کیا شکر ہے کہ چوہدری نثار علی خان کوا یک سال بعد پتہ چل گیا کہ ان کے نمائندے الیکشن میں کامیاب ہو چکے ہیں اور وہ مبارک باد کے مستحق ہیں ادھر نمائندوں کی خوشی قابل دید تھی کی آخر کار ان کے لیڈر کو ان کی یاد آگئی جلسے کے اور چوہدری نثار علی خان کی آمد سے ان کو تقویت ملے گی اور انہوں نے جو وعدے عوام سے الیکشن میں کیے تھے اب پورے ہونے کا وقت آگیا ہے منتخب بلدیاتی نمائندے انتہائی خوش تھے اور ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے تھے ان کے ساتھ آئے کچھ ووٹر بھی پرجوش تھے کہ ہمارے قائد ہمارے مسائل کو حل کر دیں گے کیونکہ ان کو یاد تھا کہ چوہدری نثار علی خان نے الیکشن جیتنے کے بعد اسی عوام سے یہ وعدہ کیا تھا کہ ان کے مسائل چٹکی بجاتے ہی حل ہو جائیں گئے اسی دوان چوہدری نثار علی خان پنڈال میں تشریف لائے اور حسب روایات انہوں نے اپنے مخالفین کو آڑھے ہاتھوں لیا اور ان کی اس تقریر سے ان کے چاہنے والے اور خوش ہوگئے کہ اب ہماری یوسیز کے لیے گیس اور پانی کے منصوبوں کا اعلان ہوگا ایک بڑا کالج بنے گا ان میں کچھ تو اپنے بچوں کو ان تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتا دیکھ رہے تھے لیکن یہ کیا چوہدری نثار علی خان کی آواز بدلی اور انہوں نے منتخب نمائندوں کو کچھ سنانا شروع کر دیا آپ لوگ اپنے آپ کو کھڑپینچ نہ سمجھیں اور اگر آپ میں سے کسی نے کرپشن کی تو اس کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچاوں گا ایسے آدمی کی پارٹی میں کوئی جگہ نہیں میں نے کروڑوں کے گرانٹس سے روڈ ز کی تعمیر کی ہے اور کھوٹے سکوں کی پارٹی میں کوئی جگہ نہیں اور کرپٹ لوگوں کو نہیں چھوڑوں گا گدھوں کو چھوڑ دو گھوڑے کی سواری کروہمارے منتخب ایم پی اے قمرالسلام راجہ سانس روکے چوہدری نثار علی خان کے ساتھ بیٹھے تھے کہ کہیں ان کی سانس کی آواز سے چوہدری نثار علی خان کا خطاب ڈسٹرب نہ ہوجائے عوام حیران تھی ہمارے منصوبے اور ان کا اعلان منتخب بلدیاتی نمائندے منہ چھپاتے پھر رہے تھے کچھ تو انتہائی شرمندگی محسوس کر رہے تھے عوام اپنے پسندیدہ لیڈر کی جانب دیکھ رہی تھی کہ کب گیس کا اعلان ہو گا کہ جو موضعات محروم ہیں ان کا افتتاح کب ہو گا ،جن لوگوں نے روڈ زکی تعمیر میں ناقص میٹئریل کا استعمال کیا ان چوروں کو پکڑنے کا اعلان چوہدری نثار علی خان کریں گے ان میں کچھ وہ بھی تھے جو اپنی درخواستیں اور عرضیاں لیے کھڑے تھے وہ سوچ رہے تھے کہ ابھی چوہدری نثار علی خان ان کی جانب متوجہ ہونگئے اور ان کے مسائل چٹکی بجاتے ہی حل ہو جائیں گے وہ سب دیکھتے ہی رہے اور چوہدری نثار علی خان اپنے پرانے کاموں کو ایک پھر عوام کے سامنے دہرا کر چلتے بنے اور شوختم کچھ جو صبح گھر سے زیادہ خوشی میں بھوکے ہی نکل آئے تھے انہوں نے جی بھر کے کھانا کھایاکچھ منتخب بلدیاتی نمائندے اپنے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ سجا کر واپس اپنی گاڑیوں میں بیٹھ کر اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے اور یہ سوچ رہے تھے کہ وہ منتخب کیوں ہوئے ہیں اور عوام سے کیے گئے وعدے کیسے پورے کریں گے لیکن جو اس سیاست میں آئے ہی پیسہ بنانے کے لیے ہیں ان کی خوشی قابل دید تھی کیونکہ اب کمیٹیاں بننا تھی جنہوں نے تھانہ اور پٹواری کے نظام کو دیکھنا تھا اور وہ جانتے تھے کہ ان سے زیادہ ان نظام کو کون دیکھ سکتا ہے اوراس نظام کو پس پردہ چلانے والے کارخاص کے چہروں پر ایک مخصوص مسکراہٹ تھی ان کو پتہ تھا کی یہ متاثرین این اے 52ہیں اور متاثرین کو جب تک ریلیف نہیں ملتا وہ کہیں نہیں جاسکتے اب الیکشن 2018کے لیے ان کے پاس ایک ٹرمپ کارڈگیس،ہسپتال اور عوامی مسائل کے حل کا تھا جس کو وہ ایک بار پھر استعمال کر کے اپنے لیے کامیابی حاصل کر سکتے ہیں ۔{jcomments on}

اپنا تبصرہ بھیجیں