چوہدری نثار علی علاقائی صحافیوں سے گریزاں کیوں؟

مسعود جیلانی‘ نمائندہ پنڈی پوسٹ
سابق وفاقی وزیر داخلہ جناب چوہدری نثار علی خان وہ واحد سیاستدان ہیں جو خود یہ بات کہتے ہیں کہ وہ اپنی قیادت کو بھی کھری کھری منہ پہ کہہ دیتے ہیں آجکل اپنی قیادت کے بیانیہ سے بھی اتفاق نہیں کر رہے اگر عوام کی بات کی جائے تو ان کے حلقۂ انتخاب کے لوگوں کو بھی وہ اس بات کا موقع ہی نہیں دیتے

یعنی سچی کہنے کے عادی ہیں سچی سننے کے نہیں اور اگر کبھی کھلی کچہری کی صورت میں مہربان بھی ہوتے تو سوال کرنے والے کا سوال ابھی اس کے منہ میں ہی ہوتا تو توبس بس بیٹھ جاؤ کا کہہ کر سوال کرنے والے کو بٹھا دیتے کئی لوگ تو عزت اسی میں سمجھتے کہ کوئی سوال چوہدری صاحب کے سامنے کیا

ہی نہ جائے کیونکہ جب وہ بس بس کہیں گے تو سوال کرنے والے کی بے عزتی ہو جائے گی میرے اپنے خاندان کی سیاسی وابستگی بھی کافی عرصہ تک چوہدری صاحب کے ساتھ رہی تھی جس کے باعث مجھے بھی کم وبیش چالیس پچاس بار چوہدری صاحب کے جلسوں میں بطور سٹیج سیکرٹری کام کرنے کا موقع ملا وہاں بھی مجھے یہی ہدایت کی جاتی تھی

کہ ٹائم کم ہے لہٰذا چوہدری صاحب کے علاوہ کسی کو خطاب کا موقع نہیں دینا بلکہ جو نہی چوہدری صاحب سٹیج پر تشریف لاتے تووہ فوراً عجلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھے پیچھے ہٹنے کا کہتے اور براہِ راست عوام سے مخاطب ہو جاتے جس کسی نے کبھی بات کرنی ہو تو وہ ان کے مقرر کردہ کھڑپینچ کے ذریعے کرتا یا علاقے کے صحافیوں سے خبر کے کا سہارا لیتا

اسے بھی روکنے کے لئے پہلے تو جناب کے ذاتی معاون شیخ اسلم کے ماتحت کام کرنے والے گینگ سے صحافیوں کی پٹائی اور ان پر فائرنگ سے یہ کام روکنے کی کوشش کی کئی لیکن اس میں انہیں ناکامی ہوئی اب اپنی قیادت سے اختلاف کے بعد جب چوہدری صاحب کی بھی کہیں نہ سنی جاتی تو انہوں نے بھی میڈیا کا سہارا لینا شروع کر دیا ہے

آ ئے روز اپنی قیادت کے خلاف پریس کانفرنسز شروع کر دیں وہ بھی اسلام آباد اور ٹیکسلا کے صحافیوں کے سامنے اپنے آبائی علاقے کے صحافیوں سے چوہدری صاحب تو پہلے ہی گریزاں رہتے تھے کیونکہ آبائی علاقے کا صحافی چوہدری صاحب اور علاقہ کے لوگوں کے جذبات کو زیادہ قریب سے دیکھتا ہے لہٰذا اس کے ذہن میں اٹھنے والے سوال کا جواب شاید چوہدری صاحب کے پاس نہ ہو اس لئے چوہدری صاحب بہتر یہی سمجھتے ہیں

کہ آبائی علاقے کے صحافی کا سامنا ہی نہ کیا جائے پچھلے دنوں چوہدری صاحب کے ایک قریبی ساتھی راجہ ایم نواز صاحب کا انتقال ہو گیا جن کے جنازہ میں آپ کے مخالفین نے بھی کثیر تعداد میں شرکت کی لیکن چوہدری صاحب اتنے قریبی ساتھی کے جنازہ کی بجائے صرف فاتحہ کے لئے اور وہ بھی ساتویں روز تشریف لائے وہاں روزنامہ نوائے وقت کے رپورٹر درویش صفت صحافی آصف رسول قادری نے صرف دو سوالوں کی اجازت چاہی چوہدری صاحب نے نہ صرف یہ کہ سوالات کی اجازت نہ دی

بلکہ فاتحہ کہتے ہی چل دئیے وجہ یہ تھی کہ اب چوہدری صاحب کے پاس علاقے کے لوگوں کے سوالوں کا کوئی جواب نہیں اور نہ ہی ان کے ہاتھ میں اب وہ ڈنڈا ہے جو انہیں میاں نواز شریف نے عطا کیا تھا جس سے یہ لوگوں کو ہانک کر لوگوں سے ووٹ لے لیا کرتے تھے لیکن چوہدری صاحب! جاننا تو انسان کی فطرت میں شامل ہے انسان ہر ممکن جاننے کے لئے جستجو میں رہتا ہے اور اس کے لئے کئی تو آپ کے معاونین کے جبر سے ڈر کے بیٹھ جاتے ہیں
اور کتنے ایسے ہیں جو اس کی پروا کئے بغیر اپنے مشن پہ لگے رہتے ہیں اوراسی حال میں کئی لوگوں نے چوہدری نثار صاحب کی مخالفت میں عمر گذار دی میں نے کئی لوگوں کوجھولی اٹھا کر چوہدری نثار علی خان کو بد دعائیں دیتے دیکھا ہے آج میں دیکھ رہا ہوں کہ لوگوں کی ان بد دعاؤں کی بدولت اب چوہدری نثار علی خان اپنا مستقبل تلاش کر رہے ہیں زیادہ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ چوہدری صاحب آزاد حیثیت میں الیکشن لڑیں گے اور پھر شاید اپنے بچپن کے دوست عمران خان کے ساتھ چلے جائیں

یا اگر میاں نواز شریف کا پلڑا بھاری ہوا تو ادھر ہی رہ جائیں گے میں علاقے میں آپ کے کارکنوں کو دیکھ رہا ہوں جو لوگوں کو یہی کہہ رہے ہیں کہ انگریز دور میں بھی آپ کے اباؤجداد حکمران تھے ایوب کے دور میں بھی ، ضیا الحق کے دور میں بھی اب میاں نواز شریف کے تیس سالہ دور میں بھی آپ ہی تھے

اور اب لگ رہا ہے کہ عمران خان کے دور میں بھی آپ ہوں گے میں تو یہ کہتا ہوں کہ اگر عمران خان نے آپ کو چونترہ روات کے لوگوں پر مسلط کیا تو شاید وہ بھی صدیوں سے دبے ہوئے ان لوگوں کی بددعاؤں کی زد میں آ جائیں ،میں تو کہتا ہوں کہ عمران خان کو سوچنا چاہئے جو نواز شریف سے فائدہ اٹھا کر اس کا دوست نہیں بن سکا وہ آپ کا دوست کیسے ہو گا

اپنا تبصرہ بھیجیں