چوہدری نثار علی خان کے منصوبے؟/مسعود جیلانی

چوہدری نثار علی خان نے بالآخر چک بیلی خان کے دیرینہ مطالبے یعنی قدرتی گیس کی فراہمی کا اعلان کر ہی دیا پہلے مرحلے میں تین گاؤں روپڑ خورد، جھنگی دائم اور بینس کا کام رمضان المبارک کے اندر ہی مکمل کیا جائے گا جس کے لئے پانچ کڑوڑ روپے کی رقم دی گئی ہے ساڑھے گیارہ کروڑ روپے کی رقم سے چک بیلی خان شہر کے لئے کام پر

آغا زمضان کے فوراً بعد کر دیا جائے گا اس بات کا اعلان چوہدری نثار علی خان نے مذکورہ چاروںآبادیوں کے ن لیگی نمائندوں کو پنجاب ہاؤس میں بلوا کر کیا انہوں نے اپنے کارکنوں کو یہ بھی بتایا کہ وہ کافی عرصہ سے اس کام میں لگے ہوئے تھے آج کامیابی سے جب رقوم جمع ہوکے کام مکمل ہو گیا تو پوری تسلی کر کے وہ کام کا اعلان کر رہے ہیں انہوں نے وہاں موجود محکمہ گیس کے ایک افسر کو بھی شاباش دی جس کی کوششوں سے یہ کام پایۂ تکمیل تک پہنچا چک بیلی خان کے جلسہ میں چوہدری نثار علی خان کی جانب سے

چک بیلی خان شہر کے لئے ایک روپے کا اعلان بھی نہ ہونے کی وجہ سے ان کے کارکن مخالفین کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے تھے حتیٰ کہ بعض جذباتی مزاج کارکن تو چوہدری نثار علی خان کا ساتھ چھوڑنے کے اعلانات بھی کرنے لگے تھے تھوڑے ہی دن گذرنے کے بعد چوہدری نثار علی خان نے اپنے کارکنوں کو پنجاب ہاؤس بلوا نہ صرف یہ مذکورہ بڑے منصوبے کا اعلان کیا بلکہ اپنے کارکنوں خوب تواضع بھی کی یہ وہ تواضع نہیں تھی جو وہ جلسوں میں کرتے ہیں بلکہ سچی مچی کی تواضع تھی یعنی چائے بسکٹ وغیرہ اس کے بعد چوہدری صاحب نے ہر ایک کو کھلی گپ شپ کا بھی موقع دیا غرض لیگی کارکنوں نے اپنی زندگی میں چوہدری صاحب کا وہ فراخدلانہ رویہ دیکھا جسے وہ ترس ہی گئے تھے گیس کے اعلان کے بعد ن لیگی اپنی کامیابی پر پھولے نہ سما رہے تھے کئی نے تو جلسہ کے اندر سے ہی فون کھڑکا دئیے اور اپنے دوستوں کو خوشخبری سنانا شروع کر دی

سب نے باری باری چوہدری صاحب کی اس نوازش کا شکریہ ادا کیا خوشی کا یہ عالم تھا کہ ایک ن لیگی کارکن صوبیدار (ر) رادجہ ممتاز احمد جس نے کافی عرصہ قبل ایک جلسہ میں سپاس نامہ پیش کرتے ہوئے گیس کا مطالبہ پیش کیا تو چوہدری نثار علی خان نے اسے ڈانٹ دیا اور کہا کہ کیا گیس گیس لگا رکھی ہے یہ کارکن اٹھا اور اپنے اس پیش کردہ مطالبہ کا حوالہ دیتے ہوئے اس قدر جذباتی ہو گیا جہاں اس نے گیس کا ذکر کرنا ہوتا وہ بجلی کا لفظ کہہ دیتا صوبیدار(ر) ممتاز احمد نے شکریہ میں کہا کہ چوہدری صاحب ہم ان آبادیوں کو بجلی فراہم کرنے پر آپ کے مشکور ہیں لوگوں نے گیس گیس کا لقمہ دیا لیکن خوشی سے جذباتی راجہ ممتا ز بجلی بجلی کہے جا رہا تھا خیر گیس کی فراہمی کی خوشی صرف لیگیوں کو ہی نہیں بلکہ عام شہریوں کو بھی ہے کیونکہ یہ چک بیلی خان اور مضافاتی لوگوں کا چک بیلی خان کے بڑے مطالبات میں سے ایک تھا اب سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ کیا اس پر عمل درآمد وقت پر ہو جائے گا اس پر اگر لیگیوں کے ایمان اور چوہدری نثار علی خان کا اپنا دعویٰ کہ وہ جس کام کا اعلان کرتے ہیں وہ ہو کر رہتا ہے اسے مدِ نظر رکھیں تو کام جلد ہونے کی امید ہے لیکن عام حالات میں کچھ مثالیں اس کے برعکس ہیں جن کی ہم نشاندہی کر دیتے ہیں جس کے بعد توقع ہے کہ چوہدری نثار علی خان نہ صرف یہ کہ اس منصوبے کو اپنی نگرانی میں بروقت مکمل کروائیں گے بلکہ جن کی نشاندہی کی جا رہی ہے ان کی بھی خبر گیری کریں گے چک بیلی خان کو سب تحصیل بنانے کااعلان جناب چوہدری نثار علی خان نے خود کیا تھا

اور1992 ء میں اس نے کام بھی شروع کر دیا تھا مجسٹریٹ اور نائب تحصیلدار بھی آئے پھر آہستہ آہستہ ان کی حاضری کم ہوتی گئی نائب تحصیلدار نے چک بیلی خان آفس کی بجائے پاپین ریسٹ ہاؤس میں بیٹھنا شروع کر دیا اب تو تحصیلدار تو کیا محکمہ مال کا چوکیدار بھی نہیں آتا البتہ ہم سب تحصیل کے آفس کو ہم خالی اس لئے نہیں کہتے کیونہ وہ کتوں اور بلیوں کے آرام کرنے کی جگہ بنی ہوئی ہے گراؤنڈ ٹیکسی سٹینڈ ہے جبکہ صحن ایک چھولے بیچنے والے سلطان نامی شخص نے اپنا ٹھیلا لگایا ہوا ہے گیٹ پر چوکیدار نہیں لیکن ایک موچی بیٹھا جوتے بھی سی رہا ہے اور سب تحصیل کے دفتر کی چوکیداری بھی کر رہا ہے اس کے بعد ذکر کرتے ہیں بوائز کالج کا جس کا اعلان ایک چوہدری نثار علی خان نے نہیں کیا بلکہ دو دفعہ چوہدری نثار علی خان اور ایک دفعہ راجہ بشارت صاحب نے کیا دونوں نے اس کارنامے کا سہرا اپنے اپنے سر باندھنے کی کوشش کی لیکن پرنسپل سمیت کوئی باقاعدہ پڑھانے والا نہیں

صرف کرائے پر ٹیوشن پڑھانے والی لڑکیاں تعینات کر کے کام چلایا جاتا ہے پرنسپل کی ڈیوٹی ایک کلرک سرانجام دیتا ہے سٹاف نہ ہونے پر اس کالج میں تو جا کر کوئی پڑھ نہیں سکتا البتہ ساتھ ہی واقع ایک نجی کالج کی موجیں بنی ہوئی ہیں لوگ آخر کار اسی نجی کالج میں اپنی اولادوں کو بھیجنے پر مجبور ہیں جہاں مخلوط طریقۂ تعلیم کی وجہ سے کئی مسائل بھی جنم لے چکے ہیں غرض اسی طرح کے اور بھی کام ہیں جن کے اعلانات ہوئے کچھ عملدرآمد بھی ہوا لیکن عملی استفادہ نظر نہیں آیا لہٰذا گذارش یہی ہے کہ اب اگر تیس سال بعد اس مطالبے پر اعلان کر ہی دیا گیا ہے تو از راہِ کرم اسی مدت میں مکمل کر کے قابلِ عمل بنایا جائے جس کا اعلان جناب چوہدری نثار علی خان نے اپنے کارکنوں سے خطاب میں کیا ہے۔{jcomments on}

اپنا تبصرہ بھیجیں