چوہدری نثارکی جذباتی سیاست‘ بلدیاتی نمائندے پریشان

آصف شاہ‘ نمائندہ پنڈی پوسٹ
وطن عزیزکی سیاست میں آئے دن تبدیلیاں ہوتی دکھائی دیتی ہیں کوئی بھی سیاسی لیڈر ایسا نہیں ہے کہ جس کو اپنے مفادات عزیز نہ ہوں عوامی خدمت کے دعوے کرنے والے سیاست دان عوامی مفادات سے زیادہ اپنے اور اپنی نسلوں کے مفادات کو مدنظر رکھ کر فیصلے کرتے ہیں لیکن بلدیاتی سیاست کااپنا ایک انداز ہے ملک کا نظام چلانے والے بڑے بڑے وزیر مشیر کی کامیابییوں میں بلدیاتی سیاست اور منتخب نمائندگان کا کردار اہم ہوتا ہے چوہدری نثار علی خان کی اپنی سیاست گزشتہ دنوں بہت زیادہ بھنور میں تھی بظاہر مطمن نظر آنے والے اندر سے سخت اضطراب کا شکار تھے اپنے حلقے کے منتخب نمائندوں کو عید سے پہلے بلا کر ان سے بات چیت کی گئی تھی اس وقت ان کا لب لہجہ کافی حد تک ریلیکس تھا اور انہوں نے منتخب بلدیاتی نمائندوں کی ہلکی پھلکی کڑوی کسیلی بھی سنی تھی یقیناًان کے لیے یہ ایک نیا تجربہ تھا لیکن انہوں نے گزشتہ دنوں انہوں نے دوبارہ چند دن بعد اس میٹنگ کو دوبارہ کال کیاجس پر سب منتخب بلدیاتی نماءئندگان ایک بار پھر پنجاب ہاوس پہنچ گئے زرائع کا کہنا ہے کہ میٹنگ کے شروعات میں چوہدری نثار علی خان نے بلدیاتی نمائندوں کو آڑھے ہاتھوں لے لیا اور کہا کہ آج کوئی سوال نہیں اور نہ ہی کسی کی سنی جائے گی میں نے آپ کی بہت سن لی آج آپ کو میری سننی ہے سب سے پہلے انہوں نے بلدیاتی نمائندوں اور ہر یوسیز میں اپنی مرضی سے بنائی گئی کمیٹیوں کا بڑے خوبصورت انداز میں دفاع کیا اور کہا کہ اگر کسی کو کوئی مسلہ تھا تو جب میں نے کمیٹیاں بنائی تھی تو اس وقت آپ نے ان کے حوالہ سے کوئی بات کیوں نہیں کی اس وقت تو کسی کوئی تحفظات نہیں تھے لیکن جب ان کمیٹیوں نے جا کر یوسیز کی سطح پر کام شروع کیا تو چند چیئرمینز کی جانب سے ان کے بارے میں تحفظات شروع ہو گئے ہیں پنڈی پوسٹ زر ائع کا کہنا ہے کہ انہوں نے منتخب نمائندوں کھری کھری سناتے ہوئے کہا کہ اگر کسی کو مسلہ ہے تو کھل کر بتائے لیکن مجھے کسی کی ضرورت نہیں اور اگر کوئی جانا چاہتا ہے تو جائے مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن میڈیا پر بیان بازی قبول نہیں ہے جیتنے والے یہ بات سن لیں کہ اگر میں ان کی یوسیز میں کسی کو ٹکٹ دے دیتا تو کیا پھر وہ جیتتے ہر گز نہیں یہاں چوہدری نثار علی خان یہ دعوی بھی کیا کہ میں نے اصولوں کی سیاست کی ہے اور اس پر کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کیا اور عہدے عزت سے زیادہ اہم نہیں ہیں اور نہ ہوتے ہیں اب دوسری جانب ایک بڑا سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر چوہدری نثار علی خان کو اپنی عزت اتنی عزیز ہے کہ وہ اس پر سمجھوتہ نہیں کرتے تو پھر اس کون سے وجوہات ہیں جن کی بنا پر وہ منتخب نمائندوں کو ان کا اصل مقام ابھی تک نہیں دے پا رہے ہیں اگر ان کو اپنی بنائی ہوئی کمیٹیوں کی عزت کا اتنا ہی پاس تھا تو ان کو کس لیے منتخب بلدیاتی نمائندوں پر ٹھونسا گیا تھا ایک یوسی سے منتخب ہونے والا پینل جو پوری یوسی سے ہزاروں کی ووٹ لیکر آتا ہے اس پر اگر باہر سے کوئی آدمی مسلط کر دیا جائے تو اس کی عزت نفس کا کیا ہوگا اگر پارٹی کے اندر سے چوہدری نثار علی خان کی بات کو نہیں مانا جاتا تو ان کی ذات کو کتنا برا لگتا ہے بالکل اسی طرح منتخب بلدیاتی نمائندوں جنہیں عوام نے منتخب کیا ہے اور اس عوام نے جن کے دروازے پر دستک دیکر انہوں نے ووٹ لیے ہیں اور نہ یہ صرف اپنے لیے بلکہ آپ کی عزت کے لیے بھی یہ لوگ عوام کے پاس جاتے ہیں ان کی باتیں سنتے ہیں اور ایسی باتیں جن کو آپ جیسا سیاست دان بھی اگر ایک دفعہ اپنے کانوں سے سن لے تو شائید اس سیاست سے ہی توبہ کر لے لیکن یہ لوگ آپ کے لیے وہ باتیں بھی نہ صرف سنتے ہیں بلکہ آئے دن ان لوگوں سے سامنا بھی کرتے ہیں عوامی رائے عامہ یہ کھل کر کہ رہی ہے کہ منتخب نمائندوں پر کمیٹیوں کو تھوپنا کہاں کا انصاف ہے لیکن چوہدری نثار علی خان شائید اپنی انا کو تسکین پہنچانے کے لیے ایسا کرتے ہیں حلقہ میں یہ بھی چہ میگوئیاں ہورہی ہیں کہ کمیٹیاں بنانے کا اصل مقصد صرف اور صرف یہ تھا کہ ہر یوسی کی مکمل رپورٹ لی جائے کہ وہاں پر کون کتنا مقبول ہے اور جو لیگی دھڑے ایک دوسرے کے مخالف ہیں ان کو ایک دوسرے کے خلاف بہت طریقے سے استعمال کیا گیا ہے اور پس پردہ لڑاو اور حکومت کرو کی پالیسی کو اپنا کر اپنا ٹارگٹ پورا کیا گیا جہاں سے چوہدری نثار علی خان اور ان کی ٹیم نے شائید اپنی سیاست کو مضبوط کر لیا لیکن اس پالیسی کو وہ کب تک لاگو رکھیں گے جو دھڑے آج منتخب بلدیاتی نمائندوں کے خلاف رپورٹیں دے رہیں اور وہ خوش ہیں کہ انہوں نے اپنا کام مکمل کر لیا ان کے لیے کل وہ بھی منتخب ہو کر جب سامنے آئیں گے تو ان کے ساتھ بھی اس سے زیادہ برا ہو سکتا ہے یہ مکافات عمل ہے اور چوہدری نثار علی خان کو بھی مکافات عمل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور آنے والے دنوں میں اس سے زیادہ سامنا ہو گا پارٹی کا غصہ منتخب بلدیاتی نمائندوں پر اتارنے کی کیا تک بنتی ہے انہوں نے کیا قصور کر دیا ہے کہ اگر آپ کا حلقہ کا دورہ کریں تو یہاں کوئی چر نہیں کر سکتا اور اگر پنجاب ہاوس چلا جائے تو وہاں نہیں بول سکتا رہی عوامی حلقوں میں یہ بات گردش کر رہی ہے کہ چوہدری نثار علی خان فنڈز کی وجہ سے یہ سب کچھ کرتے نظر آتے ہیں لیکن یہ تو وہ عوام کا بنیادی حق ہے اور جو پگڑی آپ نے عوامی نمائندے کی صورت میں سر پر رکھی ہوئی ہے یہ آپ کا اخلاقی فریضہ ہے کہ آپ اس کو عوام تک پہنچائیں ،،یہاں ایک بات کا ذکر تا چلوں کہ سیلاب کے موقعہ پر ایک ریچھ سیلابی پانی میں بہتا جا رہا تھا کہ ایک شخص نے اس کو کمبل سمجھ کر اس کو پکڑ لیا ریچھ ڈوب رہا تھا اس نے پکڑنے والی شخص کو جپھا ڈال لیاکنارے پر کھڑے لوگ شور کرنے لگے کہ کمبل کو چھوڑ دو ڈوب جاو گے وہ بولا کہ میں تو کمبل کو چھوڑنا چاہتا ہے ہوں لیکن کمبل مجھے نہیں چھوڑ رہا ہے اگر بلدیاتی نمائندوں کے ساتھ یہی سلوک رہا اور ان کی عزت نفس کوبحال نہ کیا گیا تو پھر ،،ہم تو گئے ڈوب تجھے بھی لے ڈوبیں گے والا کام ہو گا اور اگر یہی وطیرہ سیاست رہا تو اس کا نمونہ اگلے الیکشن میں سامنے اجائے گا اپنی عزت نفس کے لیے بلدیاتی نمائندوں کو بھی حق لے لیے بولنا ہو گا بصورت دیگر ان کو یوسی میں بھی اسی صورت حال کا سامنا کرنا پر سکتا ہے جس کا شکار وہ جلسے جلوسوں یا پنجاب میں ہوتے ہیں مکافات
عمل سے کسی کی یاری نہیں ہوتی ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں