چوہدری ساجد یوسی بشندوٹ کے مسائل حل کرنے میں ناکام

ساجد محمود/حالیہ دنوں میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کشیدگی کا ماحول نقطہ عروج پر پہنچ چکا ہے اور ملکی سیاسی حالات بتدریج تصادم کیطرف بڑھ رہے ہیں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں توازن برقرار نہ رکھنے کے حوالے سے حکومت شدید عوامی تنقید کی زد میں ہے عوام نے نئی حکومت سے خاصی امیدیں وابستہ کر لی تھیں کہ مقامی اور علاقائی سطح پر عوام کی فلاح وبہبود کے کلچر کا آغاز ہو گا تاہم منتخب نمائندوں کی مایوس کن کارگردگی نے عوام کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے کسی بھی جمہوری ملک کی تعمیروترقی میں بلدیاتی اداروں کا قیام کلیدی اہمیت کا حامل تصور کیا جاتا ہے تاہم ہمارے ملک میں دوسال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود تاحال حکومت بلدیاتی اداروں کے قیام میں مخلص دکھائی نہیں دیتی جبکہ گزشتہ مسلم لیگ نون کے دور حکومت میں نہ صرف بلدیاتی ادارے مکمل طور پر فعال کیے گئے تھے بلکہ منتخب نمائندوں نے نچلی سطح پر عوامی فلاحی مسائل کے حل پر بھی بھرپور توجہ دی ہے تحصیل کلرسیداں کی تمام یونین کونسلز میں ترقیاتی کاموں میں کافی پیش رفت دیکھنے میں آئی تھی بالخصوص یونین کونسل بشندوٹ کے منتخب چیئرمین راجہ زبیر کیانی نے اپنے عوامی عہدے کا حق نبھاتے ہوئے یونین کونسل بشندوٹ میں ریکارڈ ترقیاتی منصوبے مکمل کیے تھے جن میں دھیری تا موہڑہ میراں کارپٹ روڈ کی تعمیر آبادی کیلئے راستوں کی دریافت یونین کونسل کے مختلف دیہات میں گلیوں کی تعمیر بجلی کے پول اور نئے ٹرانسفارمرز کی تنصیب بھی شامل ہے اس دور میں جو مقامی سطح پر ترقیاتی منصوبوں پر کام جاری تھا اگر ان بلدیاتی اداروں کا تسلسل برقرار رہتا تو موجودہ دور میں بہت سے عوامی مسائل حل کے قریب ہوتے جب سے تحریک انصاف کی حکومت اقتدار میں آئی ہے آئے روز نت نئے بحران سر اٹھا رہے ہیں حلقے کے منتخب ایم این صداقت علی عباسی تحصیل کلرسیداں میں شامل یونین کونسلز میں عوام کو مسلسل نظرانداز کیے ہوئے ہیں جبکہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ایم پی اے چوہدری ساجد محمود بھی یونین کونسل بشندوٹ کو کسی دوسرے حلقے کی یونین کونسل میں شمار کرتے ہیں کچھ عرصہ قبل یونین کونسل بشندوٹ میں ترقیاتی کاموں کیلیے فنڈز کا اجرا کیا گیا تھا تاہم اس رقم کی ترسیل سے یونین کونسل کے کسی بھی دیہات میں کوئی بھی قابل زکر منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچنے میں ناکام رہا ہے دستیاب فنڈز جاری کرکے بعض دیہات میں شروع کیے گئے نعکاسی آب کے نامکمل اور ادھورے منصوبے عوام کیلیے دردسر بنے ہوئے ہیں اگر آپ دھیری تا ساگری سڑک پر سفر کرنے کا اتفاق ہو تو نکاسی آب کے ناقص اور نامکمل منصوبوں کی بدولت گندے پانی کا زخیرہ آپکو سڑک پر جگہ جگہ جمع نظر آئے گا جس سے عوام کو آمدورفت میں شدید تکلیف اور پریشانی کا سامنا ہے آج سے دوسال قبل گورنمنٹ گرلز ہائی سکول اراضی خاص میں سالانہ نتائج کے موقعہ پر مقامی سیاسی قیادت کے علاوہ حلقے کے منتخب ایم پی اے چوہدری ساجد محمود کو بطور مہمان خصوصی مدعو کیا گیا تھا جس میں علاقے کے دیگر مقامی عمائدین کی ایک بڑی تعداد اس موقعہ پر وہاں موجود تھی تقریب کے دوران رئس مدرسہ کیجانب سے سیاسی قیادت سے سکول میں ایک واش روم کی تعمیر کی درخواست کی گئی تھی جس پر محض 20,25 ہزار روپے کے اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا تھا تاہم اس اہم مسئلے پر بھی دھیان نہیں دیا گیا جبکہ اس خبر کی تشہیر ہونے پر گاوں اراضی خاص کے ایک رہائشی نوجوان نوید اختر جو حصول رزق کیلیے ابو ظہبی میں مقیم ہیں انہوں نے خود سکول جاکر واش روم کی تعمیر کی پیشکش کی تھی اور کچھ ہے دنوں بعد انکی طرف سے تعمیراتی سامان مہیا کردیا گیا تھا اب سکول میں واش روم کی تعمیر بھی مکمل ہوچکی ہے یاد رہے کہ گزشتہ عام انتخابات میں تحریک انصاف کے منتخب امیدوار تحصیل کلرسیداں کے اکثروبیشتر پولنگ اسٹیشن سے واضح اکثریت سے کامیاب قرار پائے تھے ضرورت تو اس امر کی تھی کہ وہ منتخب ہوکر تحصیل کلرسیداں کی عوامی فلاح پر اپنی تمام تر توانیاں صرف کردیتے مگر اقتدار میں آکر حکمران عوام کو سہولیات دینے کی بجائے اپنی زندگی کی آسائش اور عیش وعشرت کیلیے مراعات حاصل کرنے میں زیادہ خوشی محسوس کرتے ہیں اگر عوام سے حاصل شدہ ٹیکس کے پیسے کا کچھ حصہ عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ کیا جائے تو یہ سیاسی اکابرین کیجانب سے کوئی احسان مندی نہیں ہوگی عوام ووٹ کے بدلے اپنی سہولیات کے عدم حصول پر اپنے حلقے کے منتخب نمائندوں سے احتجاج اور بازپرس کرنے میں حق بجانب ہیں اگر منتخب عوامی نمائندہ عوامی مسائل اور شکایات کے ازالے میں دلچسپی نہیں رکھتا تو وہ عوام کے حاصل شدہ ووٹوں کی بدولت عوامی عہدہ پر برقرار رہنے کا اخلاقی جوازکھو دیتا ہے عوام سے بھی التجا ہے کہ وہ سیاسی وابستگی اور پارٹی وفاداری کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے حقیقی حل طلب مسائل حلقے کی منتخب قیادت کے سامنے رکھیں اور ان مسائل کے حل کیلیے منتخب نمائندوں کو مجبور کیا جائے اور دباو ڈالا جائے اگر منتخب نمائندے ان مسائل کے حل سے آنکھیں چراتے ہیں تو نہ صرف اپنے حقوق کی خاطر صدائے احتجاج بلند کیجائے بلکہ مستقبل میں دوبارہ انتخابات کیموقعہ پر انہیں ہری جھنڈی دکھا دی جائے تاکہ انہیں دوبارہ عوام کے حقوق سلب کرنے کی مزید مہلت نہ مل سکے چونکہ جمہوریت میں اصل حق حکمرانی کا اختیار عوام کے پاس ہوتا ہے مگر جب عوام کے ووٹوں سے منتخب نمائندے تخت تک رسائی حاصل کرلیتے ہیں تو عوام کو لالی پاپ دینا شروع کردیتے ہیں منتخب نمائندوں سے اپنے مسائل کے حل کا تقاضا کرنا حلقے کی عوام کا بنیادی حق ہے تاہم شرط یہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت کے کارکنان ذاتی مفادات اٹھانے کی بجائے اجتماعی عوامی مسا?ل کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کرلیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں