چوہدری ریاض غلط فیصلہ کر بیٹھے

زندگی کے کچھ فیصلے بہت سوچ سمجھ کر کرنا پڑتے ہیں کیونکہ بِلا سوچے سمجھے جلد بازی میں کیے جانے والے فیصلے کچھ وقت گذرنے کے بعد طوفان خیز ثابت ہوتے ہیں۔ایسا طوفان جو مختلف سمتوں سے اُٹھتا ہے اور ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔کہتے ہیں دنیا گول ہے لہذا اس کے تمام معاملات بھی اس دائرے میں سفر کرتے ہیں حتیٰ کہ عمل اور اس کے نتائج بھی اسی مدار میں گھومتے ہوئے بلآخر اپنے انجام کو پہنچ جاتے ہیں دوہرا معیار دوہری شخصیت عارضی طور پر تو نمایاں مقام دے سکتی ہے مگر مستقبل میں سچ کی کسوٹی پر پورا اترکر ہی انسان پر سکون ہوپاتا ہے۔ کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں جنہیں نبھانے کے لیے خواہشات کے آگے بند باندھنے پڑتے ہیں۔

مگر کچھ خواہشیں اس نوعیت کی ہوتی ہیں کہ اُن کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے انتہا تک جانا پڑتا ہے ایسی ہی خواہشیں ہمارے سیاسی اکابرین پالتے ہیں اور ان کی تکمیل کے لیے وہ اپنے ہی کیے وعدوں اور دعوؤں کو پشت ڈال کر وہ غلطیاں کرگزرتے ہیں جن کا احساس انہیں وقت گذرنے کے بعد ہوتا ہے۔سیاست یوں تو ایک ایسا عمل ہے جو چالاکی‘عیاری‘سازش فریب دہی اور دروغ گوئی سے تعلق رکھتاہے۔جو ہر سیاست کا خاصہ ہوتا ہے گوجرخان کی سیاست میں چوہدری ریاض کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ان کی سیاسی زندگی کا آغاز1985میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں منعقد ہونے والے غیرجماعتی الیکشن میں میں حصہ لینے سے ہوا 1985ء کے الیکشن میں جیت کر وہ پنجاب اسمبلی میں پہنچے پھر ان غیر جماعتی اسمبیلوں کے اندر وجود میں آنے والی مسلم لیگ کا حصہ بنے جو محمد خان جونیجو کی صدارت میں بنائی گئی۔

چوہدری ریاض نے مسلم لیگ کے ٹکٹ پر ہی 1988،1990،1993،1997 میں کامیابیاں سمیٹیں جبکہ اپنے کامیابیوں کے ادوار میں عوام کو ڈیلیور نہ کرنے پر2002،2008 میں انہیں شکست کاسامنا رہا 2013میں پارٹی قیادت نے ان کی مسلسل شکست کے پیش نظر اس حلقے سے چوہدری افتخار وارثی کو راجہ جاوید اخلاص کے ساتھ میدان میں اتارالیکن چوہدری ریاض نے پارٹی کے فیصلے کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے کھل کر پیپلز پارٹی کے ایم این اے کے امیدوار راجہ پرویزاشرف اور تحریک انصاف کے صوبائی امیدوار چوہدری جاوید کوثر حمایت کی ان کے جلسے کروائے اور آرائیں برادری کو استعمال کرنے کی ناکام کوشش کی تاہم مسلم کے امیدواروں کی کامیابی نے چوہدری ریاض کے سیاسی وزن کو عوام پر عیاں کردیا2013 میں چوہدری ریاض کی یہ پہلی سیاسی غلطی تھی جن کا انہیں نقصان ہوا کہ ان کی سیاسی حیثیت عام آدمی پر عیاں ہوگئی

برادری کے ساتھ ہونے کا تاثر بھی ملیامیٹ ہوا اسی دور میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن میں چوہدری ریاض اور بیول میں ان ساتھ دینے والے برادری کے چند لوگوں نے بلدیاتی الیکشن میں پوری طاقت سے مسلم لیگی پینل کے مقابلے میں تحریک انصاف کی انتخابی مہم چلائی لیکن یہاں بھی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا اور مسلم لیگ ماسوائے ایک کونسلر سیٹ کے تمام نشتیں جیت گئی یہ چوہدری ریاض کی دوسری سیاسی غلطی تھی جس نے برادری ساتھ ہونے کے ان کے دعوؤں کا کھوکھلا پن ثابت کردیا پارٹی سے بے وفائی کے باوجود چوہدری ریاض اور ان کے بھائی چوہدری خورشید زمان (جو مشرف دور میں وزیراعظم کے مشیرہے) خود کو نظریاتی مسلم لیگی گردانتے رہے۔جو کسی مذاق سے کم نہیں تھا۔2018میں پارٹی نے ایک بار پھر چوہدری ریاض کو راجہ جاوید اخلاص کے ساتھ الیکشن میں اتارا اس بار چوہدری افتخار وارثی نے 2013میں چوہدری ریاض کے اپنے خلاف ادا کردہ کردار کا قرض سود سمیت واپس کیا

اور چوہدری افتخار وارثی کی راجہ پرویز اشرف اور جاوید کوثر کی حمایت نے چوہدری ریاض اور مسلم لیگ کو پہلے سے تیسرے نمبر پر لاکھڑا کیا۔اس طرح چوہدری افتخار وارثی نے اپنا سیاسی وزن بھی منوایا اور اپنا بدلہ بھی لیا جو میرے نزدیک کسی طور درست عمل نہیں تھا۔آج 2024میں ایک بار پھر مسلم لیگ باہمی دھڑے بندے کا شکار ہے۔پارٹی ٹکٹ نہ ملنے پر حسب سابق چوہدری ریاض پارٹی چھوڑ کر تحریک لبیک کا حصہ بن چکے اور اس جماعت کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے میدان میں اترے ہیں۔ چوہدری ریاض ایک بار ہا غلط فیصلہ کربیٹھے ہیں۔ہمارے یہاں سیاست تھانے تحصیل کے گرد گھومتی ہے اداروں میں اثر ورسوخ ہی سیاست دانوں کی سیاست کو زندہ رکھتا ہے۔اگر گرفت نہ ہو تو سیاست ختم مستقبل میں مجھے چوہدری ریاض کے حوالے یہی ہوتا دکھائی پڑتا ہے۔

تحریک لبیک میں شمولیت سے صرف تین روزقبل چوہدری ریاض نے بیول آمد کے موقع پر صحافیوں سے ہونے والی ملاقات کے دوران میرے اس سوال پر کہ اگر آپکو پارٹی ٹکٹ نہیں ملتا تو آپکا لائحہ عمل کیا ہوگا تو جواب میں چوہدری ریاض نے دو قوم آگے بڑھ کر مجھے گلے لگاتے کہا کہ میں اپنے ٹکٹ ہولڈروں اس طرح گلے لگا کر ان کے لیے کمپین چلاؤں گا اور پھر وہ اپنے دعوے کا بھرم قائم نہ رکھ سکے۔چوہدری ریاض اپنی سیاست کرچکے اب ان کے بیٹے کا وقت تھا چوہدری افتخار وارثی کی عمر اور ناسازی طبیعت کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے

کہ وہ آئندہ الیکشن کی سیاست میں شاید دلچسپی نہ لیں ایسے میں چوہدری ریاض کے فرزند چوہدری خرم کے لیے راستے کھلے تھے اور انہیں چوہدری افتخاروارثی کی حمایت بھی حاصل ہوتی جس بارے چوہدری افتخار وارثی بڑی مثبت سوچ رکھتے ہیں۔لیکن چوہدری ریاض اپنی ذات سے آگے دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں۔سو انہوں نے جو فیصلہ کیا وقتی طور پر تو انہیں مرکز نگاہ بنائے ہوئے ہے لیکن الیکشن کے بعد؟

اپنا تبصرہ بھیجیں