چوہدری خورشید زمان کی سیاست

جاوید کوثر کی تین سالہ کارکردگی

الیکشن کی تاریخ آنے کے بعد ملک بھر میں سیاسی حالات نے ہلچل مچا رکھی ہے ہر خاص وعام اس کی لپیٹ میں ہے ملک میں سیاست کی سوداگری ایک بار پھر عروج پر ہے شطرنج کے مہرے سیاسی بساط پر مسلسل جگہ بدلتے نظر آرہے ہیں نئی چالیں نئے کردار نئے منصوبوں نئے بیانیوں کے ساٹھ سامنے آرہے ہیں۔کہاوت ہے کہ صبرسے اور ٹھنڈا کرکے کھانے میں ہی عافیت اور غذائیت ہوتی ہے لیکن کچھ عجلت پسند اپنے بے صبرے پن پر قابو نہیں رکھتے اور کھیل کی بازی پھسل کر دوسرے کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے۔ سیاست کی باریکیوں کو سمجھنا ہر شخص کی بس کا روگ نہیں سیاست کا کھیل کھیلنے کے لیے اس کھیل میں مدمقابل حریفوں کی طاقت کا درست اندازہ لگانا بہت اہمیت رکھتا ہے جسمانی طاقت با مضبوط ڈیل ڈول اس کھیل میں کوئی معنیٰ نہیں رکھتے۔بلکہ یہ کھیل نفسیاتی حربوں کے استعمال کا کھیل ہے جو اس کے داؤ بیچ درست استعمال کرگیا وہ فاتح ٹھہرا۔الیکشن کی تاریخ اناونس ہونے کے بعد ملک بھر کی طرح گوجرخان کی سیاست میں ایک ہلچل دیکھائی دے رہی ہے۔سیاسی کھلاڑی اپنی اپنی صف بندیوں میں مصروف ہیں۔

اس وقت سیاسی ماحول میں تحریک انصاف عتاب کا شکار ہے طاقت وروں نے اس جماعت کی مشکیں کس دی ہیں۔بظاہر الیکشن ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان ہی ہوتا دیکھائی پڑتا ہے۔گوجرخان کے ایک قومی اور دو صوبائی حلقوں میں پیپلزپارٹی کے راجہ پرویزاشرف اور ان کے بیٹے خرم پرویز کنفرم امیدوار ہیں جبکہ پی پی آٹھ کے لیے اعظم پرویز کا نام تواتر سے سامنے آرہا ہے۔مسلم لیگ ن کے ٹکٹ کے لیے پی پی آٹھ سے سابق ممبر اسمبلی چوہدری افتخار وارثی‘ چوہدری جمیل‘ شاہد صراف‘ چوہدری ریاض کے فرزند چوہدری خرم نے درخواستیں جمع کروائی ہیں لیکن چاروں امیدوارں میں سے افتخار وارثی ٹکٹ کے حوالے سے کافی مضبوط پوزیشن پر ہیں۔جبکہ پی پی نو سے سابق ممبر صوبائی اسمبلی شوکت بھٹی‘ راجہ حمید اور چوہدری ضیافت گجر ٹکٹ کے امیدوار ہیں یہاں سے شوکت بھٹی متوقع امیدوار ہوسکتے ہیں۔ دوسری جانب این اے کی نشست پر راجہ جاوید اخلاص ن لیگ کے پا س واحد امیدار ہیں جن کے بارے میں اطلاعات مل رہی ہیں کہ ان کا ٹکٹ کنفرم ہوچکا ہے اگر مسلم لیگ ن پی پی سے افتخار وارثی اور پی پی نو سے شوکت بھٹی کو راجہ جاوید اخلاص کے ساتھ ایم پی اے شپ کے لیے میدان میں اتارتی ہے تو پیپلز پارٹی کے لیے راجہ کافی مشکلات ہوسکتی ہیں حالیہ دنوں میں حلقے سے متعدد گروپ پی پی چھوڑ کر راجہ جاوید اخلاص کی حمایت کا اعلان کرچکے ہیں جبکہ ابھی الیکشن کا شیڈول اناونس نہیں ہوا۔

تحریک انصاف کے لیے پی پی آٹھ سے پارٹی کے انتہائی مخلص کارکن یاسر عرفات کیانی کے علاوہ سہیل کیانی ٹکٹ کے لیے امیداوار ہیں جبکہ پی پی نو سے سابق ممبر صوبائی اسمبلی چوہدری ساجد بارے چے میگوئیاں ہورہی ہیں جو بظاہر تو تحریک انصاف چھوڑ چکے ہیں۔ چوہدری عظیم کی تحریک انصاف سے الگ ہونے کے بعد فل حال کوء امیدوار سامنے نہیں آیا تاہم چوہدری ساجد کی طرح چوہدری عظیم کے بارے بھی مبینہ طور پر تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے ہی الیکشن لڑنے بارے کچھ سرگوشیاں سنائی دے رہی ہیں دوسری جانب افواہیں گردش کررہی ہیں کہ مسلم لیگ کے سابق ممبر صوبائی اسمبلی چوہدری ریاض کے چھوٹے بھائی جو خود بھی ن لیگ کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے ممبر رہے وہ تحریک انصاف کے ٹکٹ پر امیدوار ہوسکتے ہیں۔چوہدری خورشید زمان مشرف دور میں پارٹی پر مشکلات کے دوران پارٹی سے کنارہ کشی اختیار کرکے جمالی کابینہ میں شامل رہے بعد ازاں ڈاکٹر قدیر خان کی کی سیاسی جماعت میں مرکزی عہدے پر فائز رہے۔پھر ایک دوسال قبل ایک بار پھر وہ خود کو نظریاتی مسلم لیگی قرار دے کر میدان میں اترے۔میری ان سے دوبار ملاقات ہوئی جس میں وہ انہوں نے خود کو ایک سچا اورپارٹی سے مخلص نظریاتی مسلم لیگی ثابت کرنے کی کوشش کی۔ان ملاقاتوں میں انہوں نے 2018 کے الیکشن میں افتخار وارثی کے کردار پرکھل کر تنقید کی لیکن 2013 کے الیکشن میں اپنے کردار پر کیے جانے میرے سوال کا جواب دینے سے گریزاں رہے تاہم وہ گوجرخان مسلم لیگ میں گروپنگ ختم کرنے کے دعوے کرتے رہے۔پھر اچانک انہیں مسلم لیگ ن میں بہت سی برائیاں نظر آنے لگیں۔ابھی ایک تازہ انٹرویو میں انہوں نے مسلم لیگ کے ساتھ ن لیگ کا لاحقہ لگانے پر اعتراض کرتے ہوئے قائد اعظم کی مسلم لیگ کو ن لیگ بنانے پر تنقید کی۔میزبان سوال نہ کرسکا کہ جب آپ مسلم لیگ کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے تھے تو کیا اس وقت مسلم لیگ کے ساتھ ن لیگ کا لاحقہ موجود نہ تھا۔

سوال نہیں ہوا کہ تحریک انصاف کے دور حکومت میں جب مریم نواز اور حمزہ مہنگائی مارچ کے حوالے سے ریلی کی قیادت کرتے ہوئے گوجرخان پہنچے تھے تو آپ استقبال کے جی روڑ پر بھاگتے دوڑتے کیوں دیکھے گئے۔بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ ن لیگ کے ٹکٹ سے مایوسی کے بعد چوہدری خورشید زمان اپنی سابق جماعت پر تنقید کررہے ہیں۔جس طرح وہ عمران خان کی آج تعریفیں کررہے ہیں اسی ایک ایک سال ڈیڑھ قبل ان پر تنقید کرتے رہے ہیں ہمارے سیاست دان قوم کو بے وقوف سمجھ کر پینترے بدلنے میں بہت ماہر ہیں لیکن انہیں نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ دور انفارمیشن کا دور ہے جدت نے عوام کو شعور بخشا ہے اب سب کچھ سامنے نظر آتا ہے۔چوہدری خورشید زمان پہلے بھی ن لیگ سے علیحدگی اختیار کر چکے ہیں اب بھی ان کا حق ہے کہ وہ کسی بھی جماعت کے پلیٹ فارم سے سیاست کریں لیکن سیاست روایتی طرز کی نہ کریں۔منافقت کی سیاست انہیں فائدے کے بجائے نقصان سے دوچار کرے گی عین اسی طرح جس طرح 2013 میں دونوں بھائیوں کے سیاس کردار نے انہیں گوجرخان کی سیاست میں زیرو کیا۔کیونکہ دونوں بھائیوں کی کھل کر ن لیگ کی مخالفت کے باوجود ن لیگ نے گوجرخان کی تینوں نشستیں جیت کر چوہدری برادران کی حلقہ میں سیاسی طاقت کا پول کھول دیا تھا جبکہ 2018 میں افتخار وارثی کے جوابی وار نے مسلم لیگ کو پہلے سے تیسرے نمبر پر پھینک کر ایک بار پھر ان کی سیاسی حیثیت کو عوام پر آشکار کیا۔اب بھی خورشید زمان کسی جماعت کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں اتریں مقابلہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان ہوتا دیکھائی دیتا ہے۔کیونکہ جو طاقتیں 2018 کے الیکشن کو مینج کررہی تھیں وہی طاقت آج بھی متحرک ہے۔عوام میں نوازشریف کے دوبارہ ویراعظم بننے کا تاثر جڑ پکڑ چکا ہے یہاں یہ روایت رہی ہے کہ جس جماعت کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کا تاثر موجود ہو عوام اسے فاتح سمجھ اسی کی جانب لپکتی ہے۔چوہدری خورشید زمان کی سیاست نے چوہدری ریاض اور ان کے بیٹے خرم زمان کے لیے بھی پارٹی کے اندر مشکلات پیدا کردی ہیں۔صنم ہم تو ڈوبے ساتھ تمہیں بھی لے ڈوبے والی سچویشن ہے۔سو خورشید زمان قسمت آزمائی ضرور کریں لیکن عوام کو بے وقوف نہ بنائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں