چوہدری آصف ارشاد بلامقابلہ چیئرمین منتخب

میں اور چوہدری راسب صاحب سفر پر رواں دواں تھے کہ چوہدری صاحب کو ہر دو منٹ کے بعد کالز موصول ہوتی رہیں اور چوہدری راسب خان پکھڑال منہاس اپنی آنکھوں میں خوشی کے آنسو لیے ہر شخص کی مبارک باد ہنستے ہوئے قبول کرتے اور جیسے ہی فون رکھتے پھر کسی اور فرد کی کال آ جاتی۔ مجھے کہنے لگے کہ آج میں بہت خوش ہوں کہ آج چوہدری ارشاد صاحب کا بیٹا اور میرا بھتیجا چوہدری آصف ارشاد یو سی 33 پی ڈبلیو ڈی سے ایک بار پھر بلا مقابلہ کامیاب ہو کر چیئرمین منتخب ہو گیا ہے۔ میرے زہن میں اس وقت ایک باشعور درویش کا جملہ روشن ہوتا ہوا محسوس ہوا۔ وہ جملہ یہ تھا۔ ”گفتگو ہی بتا دیتی ہے کہ فقط تربیت ہوئی ہے یا صرف پالا گیا ہے”. چوہدری آصف ارشاد صاحب سے کافی ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں اس شخص کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر اس سے بھی زیادہ توجہ دی گئی ہے۔ اللہ پاک مزید کامیابیاں عطا فرمائے آمین۔ جب ہم بات کرتے ہیں کامیابیوں اور کامرانیوں کی تو اس کے پیچھے بہت سے محرکات اور زندگی کی تگ و دو شامل ہوتی ہے۔ چوہدری آصف نے جس عمر میں سیاست اور عوام کی فلاح و بہبود کیلئے پہلا قدم اٹھایا وہ عمر گلیوں اور بازاروں اور مٹی سے بھرے میدان میں کھیل کود میں ہی گزر جاتی یا پھر کچھ نوجوان راہ راست سے ہٹ کر راہ فرار کے انجانے مسافتوں کے مسافر بن جاتے ہیں۔ اہل علاقہ اور اردگرد بسنے والوں کیلئے ہر وقت حاضر خدمت رہنے والے شخص کو چوہدری آصف ارشاد کہا جاتا ہے بالکل چوہدری راسب اور چوہدری خالد کی طرح جو ہر وقت دوسروں کی صلح کروانے اور اجنبی افراد کے مسائل حل کروانے کیلئے ہمہ تن گوش رہتے ہیں۔ جس جوان نے اپنے اردگرد ایسے باکردار اور باضمیر افراد دیکھے ہوں وہ اچھائی سے برائی کا مسافر کیسے بن سکتا ہے۔ دوستو یاد رکھیں جیسے ہی کوئی بلا مقابلہ منتخب ہو رہا ہو تو اردو گرد سے کوئی گیا گزرا شخص اسکے مقابلے میں الیکشن میں کھڑا ہو جاتا ہے۔ بھلا کیوں؟وہ اس لیے کہ جو بلا مقابلہ میدان مار رہا ہے وہ اس کے گھر آئے اور اسے کچھ دے دلوا کر اسکی لکڑی نما کھڑی گردن کچھ رقم دے کر خم کر دے۔ چوہدری آصف کے مقابلے میں اس طرح کا ایک بھی امیدوار سامنے نہیں آیا اور یہی کسی با ضمیر اور مرد قلندر کی پہچان ہوا کرتی ہے۔ تو پھر مجھے کہنے دیجئے
میرا دشمن مجھے کمزور سمجھنے والا
مجھ کو دیکھے کبھی تاریخ کے آئینے میں
معرکہء بدر میں کردار نبی ص ہوتا ہوں
دشت کربل ہو تو میں ابنِ علی ہوتا ہوں
میں ان تمام جماعتوں کے رہنماؤں اور ارد گرد بسنے والے مکینوں کا اس لحاظ سے بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے ایک شخص کے کردار کو دیکھا اور ایک بہترین شخصیت کی خاطر اپنے اعلیٰ ظرف ہونے کی مثال قائم کر دی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر جماعت میں کچھ لوگ بہت اچھی سوچ اور کردار کے مالک ہوتے ہیں مگر ان کو پیسے کے پجاری آفراد آگے آنے نہیں دیتے۔ اسی لیے آج ہمارا نمک دنیا کو امیر ترین اور اور پاکستان کو غریب ترین بنا رہا ہے پاکستان آج third world ممالک کی فہرست میں شامل ہوتا جا رہا ہے۔ آپ سب کو یاد ہوگا کہ انجینیئر قمرالاسلام راجہ ایک آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن میں کھڑا ہوا اور تمام سیاسی جماعتیں الیکشن کا نتیجہ دیکھ کر حیران و ششدر رہ گئیں۔ سب جماعتوں کے امیدوار ہار گئے اور یہ شخص اپنے کردار اور تربیت کے بل بوتے پر کامیاب ترین ٹھرا اور پھر تمام سیاسی جماعتوں نے قمر بھائی سے رابطے کرنا شروع کر دیےء اور آج ہر زبان پر اس شخص کا نام ہے۔ دوستو بالکل ایسے ہی آج ہمارا بھائی چوہدری آصف ارشاد اپنے کردار اور چال چلن کی بدولت ہر سیاسی جماعت اسے قبول کرنے کے لیے پھولوں کے ہار لیے کھڑی ہے اور یہی کسی خاندانی اور با اصول انسان کی پہچان ہوا کرتی ہے۔ جس شخص کو دوسرے قبیلوں کے افراد دعائیں دیں وہ کیسے ناکام ہو سکتا ہے۔ چوہدری آصف ہر وقت ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کی دعاؤں کے حصار میں رہتا ہے تو پھر وہ شخص کامیاب ترین ٹھرا جس کیلئے ہوائیں بھی دعا کرتی ہیں اور سردیوں کی گھپ اندھیری رات میں گہرے بادلوں کے درمیان مکمل خاموشی ان دعاؤں کو دواؤں میں تبدیل کر رہی ہو۔ یہ شخص زیادہ ہر گز نہیں بولتا مگر کم بول بول کر دریا کو کوزے میں بند کر دیتا ہے۔ کچھ لوگ بہت زیادہ بولتے ہیں مگر ان کے اندر ا۔ب۔ اور پ سے لیکر بڑی ے تک ایک حرف بھی موجود نہیں ہوتا مگر کچھ خاندانی خون اور حسبِ و نسب والے لوگ کم بول کر جب مقابلے میں آتے ہیں چپ رہ کر بھی سب بول جاتے ہیں اپنی خاندانی تربیت اور نسلی خون کے بل بوتے پر۔ چوہدری آصف ارشاد آپ نے ثابت کر دیا کہ زندگی عملی نمونہ پیش کر کے اور خلق خدا کے راستوں سے رکاوٹیں دور کرنے سے بہتر بنائی جا سکتی ہے نہ کہ دوسروں کے راستوں میں رکاوٹیں کھڑی کرنے سے۔ اللہ پاک آپ کی تربیت کرنے والے والدین محلے کے بزرگوں اور ان دوستوں کو تا ابد سلامت رکھے جو زندگی کے ہر میدان میں آپ کے آس پاس رہے اور آپ کے دست و بازو بنے۔ جاتے جاتے میرا ایک پیغام اپنی قوم کے نام اور وہ پیغام یہ ہے کہ” اپنی سیاسی جماعتوں کیلئے ہر وقت محنت کریں مگر یاد رکھیں کہ اگر آپ کی جماعت میں کوئی ناہل اور بد کردار فرد ہے تو اسے ووٹ بھی نہ دیں اور اسکی حمایت بھی مت کریں کیونکہ اسی پارٹی کے چکر میں ہمارے پاکستان پر دشمنوں کی نظریں ایلفی کی طرح جم چکی ہیں۔ جب ہم سب اچھے سیاست دانوں کو انکے بہترین قول و فعل اور معاشرے کی فلاح و بہبود کرنے پر ترجیح دیں گے تو دس برس میں ہم صدیوں کا سفر طے کر لیں گے۔ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ بنگلہ دیش والا حادثہ دوبارہ نہ ہو جائے اور اللہ نہ کبھی ایسا وقت آئے آمین۔

اپنا تبصرہ بھیجیں