330

چوک پنڈوڑی بازار کے عہدیداران میں سرد جنگ

شہزادرضا/انجمن تاجران کے دو گروپ سامنے آنے کے بعدچوک پنڈوڑی بازار کے عہدیداران میں سرد جنگ جاری ہے کوئی ہوٹل کے اندر چائے کی چسکی لیتے تو کوئی گرم حمام کے اندر ہر شخص نے اسی بات کو موضوع بحث بنایا ہوا ہے کہ آخر ہونے کیا جارہا ہے۔دونوں گروپ اپنے آپ کو انجمن تاجران کی صوبائی اور ضلعی سطح پر موجود تنظیم سے الحاق شدہ ظاہر کر رہے ہیں حقیقت اور فسانہ کیا ہے؟کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ دوسری جانب بازار کے اکثریتی تاجران جمہوری طریقہ کار یعنی انتخابات کو ناگزیز قرار دے رہے ہیں۔ دیکھا جائے تو ماضی قریب تک جب کو شہر میں کوئی چوری کی واردات ہوتی یا کچھ کوئی اور ناخوشگوار واقعہ پیش آتا تو چند روز کے لیے اس بحث کا آغاز رہتا کہ بازار کی سرپرستی کرنے والا کوئی نہیں اور نہ ہی تاجر تنظیم ہے جو مشکلوں میں گھرے تاجروں کے سر پر ہاتھ رکھے اور ان کے لیے سائبان کا کردار ادا کرے بازار عرصہ دراز سے بغیر کسی تاجر تنظیم کے بے آسرا اور بے یارو مددگار تھا۔ڈاکٹر جہانگیر جنجوعہ بطور سرپرست اعلیٰ اور محمد رشید نے بازار میں بے نامی کمیٹی ہونے کے باوجود تاجران کے حقوق کے لیے بھرپور جدوجہد کی۔کسی تاجر کو کوئی مسئلہ پیش ہوتا تو وہ ان کی خوب سرپرستی کرتے۔لیکن گزشتہ ایک سال کے دوران شہرمیں انجمن تاجران کی کمی کو سختی سے محسوس کیا گیا‘ بازار میں کمیٹی کے قیام کا اعلان ہو ااور راجہ سہیل جہانگیر کو صدارت کی کرسی پر براجمان کیا گیالیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی کچھ ہی عرصہ میں بازار کی کمیٹی سیاست کی نذر ہونے لگی جس پر اندرون کمیٹی چہ مگوئیاں بھی ہوئیں اور یوں چند ایک عہدیداران نے خود کو کمیٹی سے الگ کر لیا جس میں سرفہرست جنرل سیکرٹری الحاج چوہدری زاہد اقبال بھی ہیں سہیل جہانگیر گروپ جس کے صدر راجہ سہیل جہانگیر ہیں ان کا واضح موقف ہے کہ ہم نے بازار کو اس وقت سنبھالا دیا جب کوئی بھی آگے بڑھنے کو تیا ر نہیں تھا بازار مسائلستان بنا ہوا تھا تاجران کو کوئی پوچھنے والا نہیں تھا بوسیدہ چوکیدارا نظام سے آئے روز وارداتیں ہو رہی تھیں ہم نے بازار کے تاجران کو اکٹھا کرنے کے بعد متفقہ طور پر تاجر تنظیم کا قیام عمل میں لایا لیکن میں صدارت کا امیدوار نہیں تھا تاجران نے اعتماد کا اظہار کیا اور مجھے صدارت کے عہدے کیلئے منتخب کیا بعد ازاں بازار میں صفائی ستھرائی اور سیکیورٹی انتظامات ہمارے لیے بڑے چیلنجز تھے جس پر قابو پانے کے لیے سب سے پہلے چوکیدارا نظام مضبوط بنایا گیا اور سیکیورٹی اہلکار تعینات کیے گئے پھر سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب اور کوڑے دا نوں کی تنصیب کا آغازبھی کیا گیا لیکن جب تنظیم کے اندر سیاست اپنا رنگ دکھانے لگی تو تنظیم کے چند عہدیداران نے خود کو تنظیم سے الگ کر لیا اور چند ہی دنوں بعد سماجی شخصیت شہزاد بٹ جو تحریک انصاف ٹریڈرونگ کے صدر بھی ہیں انھوں نے چوک پنڈوڑی بازار کی نئی تنظیم بنانے کا اعلان کر دیا اس سلسلہ میں چوک پنڈوڑی میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں تحریک انصاف کی تحصیلی قیادت نے بھی شرکت کی اور چوہدری عباس کو صدر کی کرسی پر بٹھانے کا فیصلہ کیا گیا اس کے ساتھ 81رکنی کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ انھوں نے پنڈی پوسٹ سے گفتگو میں کہا کہ ہمارا پہلی تنظیم سے کوئی ذاتی اختلاف نہ ہے بلکہ اس تنظیم کی بنیاد بھی میری تجویز اور مشاورت شامل حال رہی،تنظیم کی جنرل باڈی اور ذیلی کمیٹیوں کے قیام تک مجھ سے مشاورت کی گئی میرا ان سے صرف ایک مطالبہ تھا کہ تنظیم کو ہمارے ساتھ الحاق کریں جس پر انھوں نے آئیں‘ بائیں اور شائیں کا مظاہرہ کیا جس کی وجہ سے نوبت یہاں تک آن پہنچی کیونکہ جب تک بازار کمیٹی رجسٹرڈ نہیں ہوتی تب تک سرکاری سطح پر معاملات حل نہیں ہو پاتے،مزید ان کا کہنا تھا کہ گوکہ میرا پاس عہدہ ایک سیاسی پارٹی کا ہے مگر ہماری تنظیم غیر سیاسی ہے جو ضلعی سطح پر تمام بازار وں میں انجمن تاجران کا قیام عمل میں لارہی ہے ہمارا مقصد سیاست کرنا نہیں بلکہ لوگوں کی خدمت کرنا ہے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ چوک پنڈوڑی بازار میں پہلی کمیٹی کا قیام بھی میری مشاورت سے ہی عمل میں لایا گیا تھا لیکن مسئلہ اس وقت بنا جب تنظیم کو وعدے کے مطابق الحاق نہیں کیا گیا اور ایک تقریب میں شاہد غفور پراچہ کو بطور مہمان خصوصی بلایا گیا اور وہاں جو کچھ ہوا وہ سب آپ کے سامنے ہے شہزاد بٹ نے کہا کہ چوک پنڈوڑی سے آوازیں سنی گئیں کہ شہزا د بٹ کیوں ہمار ے معاملات میں مداخلت کر رہا ہے وہ کیوں اور کس حیثیت سے تنظیمی باڈی میں اپنے آپ کیش کرارہے ہیں تو اس بات کا جواب یہی ہے کہ میں نے نتظیمات بنانے کا عمل آج سے ڈیڑھ سال قبل شروع کیا تھا اور چوک پنڈوڑی بھی تحصیل کلرسیداں کا ہی قصبہ ہے ظاہر ہے اگر گوجرخان‘ کلرسیداں‘شاہ باغ اور دیگر شہروں میں باڈی بنائی گئی ہے تو چوک پنڈوڑی میں بھی بنائی جائے گی ہمارا کسی کے ساتھ کوئی اختلاف نہیں ہم کا م کرنے نکلے ہیں کام کر کے دکھائیں گے۔دوسری جانب بازار میں دو کمیٹیوں کے قیام کے بعد تاجران گومگو کی کیفیت کا شکا ر ہیں آخرکو ہمارا مسئلہ سنے گا کون اور بازار کو ساتھ لیکر کون چلے گا یہ معاملات آخر کب تک ایسے ہی چلتے رہیں گے یہ وہ سوالات ہیں جو ہر کسی کی زبان پر ہیں لیکن ان تمام باتوں کا جواب کسی کومعلوم نہیں بہتر تو یہی تھا کہ بڑے مل بیٹھتے تاجران کو اعتماد میں لیتے اور انتخابات کرانے کا اعلان کرتے جمہوری انداز سے اگر یہ عمل آگے بڑھتا تو کتنا ہی اچھا ہوتا اور بازار کا ماحول بھی نہ خراب ہوتا بہرحال تاجران کمیٹیاں بازار کے مفاد اور تاجروں کے حقوق کے لیے کیا اقدامات کرتی ہیں یہ تو ان کی کارکردگی دیکھ کر ہی معلوم ہو گا۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں