چوک پنڈوری مسائل کے دلدل میں پھنس گیا

چوک پنڈوڑی مین کلر پنڈی روڈ پر وقع ایک چھوٹا سا بازار ہےَ 8 کلو میٹر کے فاصلہ پر کلر سیداں شہر موجود ہے اگر صحت صفائی اور دیگر سہولیات کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو یہ شہر اس وقت ان تمام سہولیات سے محروم ہے اور کسی بھی دور میں ا س کی ترقی اور خوشحالی پر کوئی خاصی توجہ

نہیں دی گئی ہے خاص طورپر تعلیمی حوالے سے یہ شہر بہت پیچھے ہے موجود ہ وقت کے مطابق کم از کم ایک گرلز کالج وقت کی اہم ترین ضرورت ہے جب الیکشن کا وقت آتا ہے تو اس چھوٹے سے شہر میں ہر پارٹی کے بڑے بڑے دفتر بنائے جاتے ہیں اور ہر جماعت کے نمائندے تاجروں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے فرداََ فرداََ ان کی دکانوں پر چکر لگاتے ہیں اور سبھی سیاسی پارٹیاں اس شہر پر اپنا اپنا قبضہ کرنے میں مصروف نظر آتی ہیں اور جب الیکشن ختم ہو جاتے ہیں تو سبھی اس شہر کو بھول جاتے ہیں سب سے بڑھ کر ستم ظریفی یہ ہے کہ اس شہر سے پیچھے واقع بہت سے دیہات میں گیس موجود ہے اور اس کے آگے والے علاقوں میں بھی گیس لگی ہوئی ہے مگر اس شہر کو نہ جانے کیوں اس سہولت سے محروم رکھا گیا ہے صفائی ستھرائی کی حالت یہ ہے

کہ شہر کے ہر کونے میں گندگی کے ڈھیر موجود ہیں ٹی ایم اے کلرسیداں کے ماتحت خاکروب صرف روڈ پر موجود مٹی گھٹے کو صاف کرتے ہیں لیکن سائیڈز اور کونوں میں لگے گندگی کے ڈھیر اس طرح لگے ہوئے ہوتے ہیں جن کی وجہ سے بد بو اور تعفن میں شہریوں اور قرب وجواہر کی آبادی کے لیے سنگین صورتحال پیدا کر رکھی ہے اس بڑھتی ہوئی گندگی کے باعث موذی امراض پیدا ہونے کے خطرات سر پر منڈلاتے رہتے ہیں جب کہ تاجر تنظیم بھی ا س اہم مسئلے پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے شہر کے عین وسط میں گوشت اور مرغیوں کی دکانیں موجود ہونے کی وجہ سے آس پاس کے دکاندار اور گزرنے والے افراد کو دشواری کاسامنا کرنا پڑتا ہے ایسی دکانوں کو اگر شہر کے ایک طرف شفٹ کر وا دیا جائے تو یہ عام شہریوں اور دکاندار حضرات کے لیے بہت مفید ثابت ہو سکتا ہے اب تو کلر سیداں کے لیے صفائی کا نظام ایک کمپنی کو سونپ دیا گیا ہے جس کے پاس اپنے ٹرالے موجود ہیں اگر ٹی ایم اے کلر سیداں اس کمپنی کے اہلکاروں کو ہر تین ماہ بعد چوک پنڈوڑی سے گندگی کے ڈھیر اٹھانے کے لیے ہدایات جاری کریں تو ا س طرح بھی بہت سی بہتری لائی جاسکتی ہے روڈ کشادگی سے شہر کی خوبصورتی میں تو اضافہ ہو گیا لیکن سپیڈ بریکر نہ ہونے کی وجہ سے آئے رو ز کوئی نہ کوئی حادثہ ضرو ر ہو تا ہے دوسری حادثات کی سب سے بڑی وجہ کلر سیداں سے آنے والی گاڑیوں کا غلط جگہ سٹاپ ہے

گاڑیاں چوک کے عین وسط میں کھڑی ہو جاتی ہیں اور دوسری طرف سے آنے والی گاڑیوں کو کچھ نہ دکھائی دینے سے بھی کئی حادثات رونما ہوچکے ہیں ٹریفک وارڈن نے ٹریفک کے دیگر مسائل تو کافی حد تک حل کر لیے ہیں لیکن کئی بار یا د دھانی کے باوجود سٹاپ کی جگہ تبدیل کروانے میں مکمل طور پر ناکام دکھائی دے رہے ہیں اگر مذکورہ سٹاپ کو تھوڑا چوک سے آگے یا پیچھے بنا دیا جائے تو 50 فیصد حادثات کم ہو سکتے ہیں ان تمام حالات سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ٹریفک پولیس صرف چالان کرنے تک محدود ہو چکی ہے اس کے علاوہ حادثات کے اسباب کو روکنا شاید ان کی ذمہ داریوں میں شامل نہیں ہے تحصیل انتظامیہ کلر سیداں کی چوک پنڈوڑی سے عدم دلچسپی کے باعث چوک پنڈوڑی میں ناجائز تجاوزات کی بھر مار سے عا م عوا م کا پیدل چلنا تک محا ل ہو گیا ہے دکانداروں نے اپنی دکانوں کے سامنے الگ دکانیں سجا رکھی ہیں جس سے سڑکیں سکڑ کر رہ ہیں گئی ہیں جو کہ نہ صرف ٹریفک کے بھاؤ میں خلل پیدا کرتی ہیں بلکہ پیدل چلنے والوں کو بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے

چوک پنڈوڑمیں تاجر تنظیمیں موجود ہیں لیکن اس حوالے سے کوئی بھی تنظیم دلچسپی کا مظاہرہ کرتی دکھائی نہیں دے رہی ہے جس کے باعث ایک لمبے عرصے سے فٹ پاتھ سے ناجائز تجاوزات کا خاتمہ ممکن نہیں ہو سکا ہے جب کہ تحصیل انتظامیہ سال بھر میں کبھی ایک آدھ دفعہ فرضی کاروائی ڈالنے کے لیے نمودار ہوتی ہے لیکن کمزور کاروائی کے فوراََ بعد ہی صورتحال ویسی ہی ہوجاتی ہے حالانکہ پوری انتظامیہ اس شہر سے روزانہ گزرتی ہے اور اتنا بھی خیال رکھنے سے قاصر ہے کہ کل جو کاروائی عمل میں لائی گئی آیا اس پر عمل درآمد بھی ہو سکا ہے یا کہ نہیں ہوا ہے پرائس مجسٹریٹ بھی سال میں صرف دو تین دفعہ تشریف لاتے ہیں اور چند غریب دکانداروں کو جرمانے کر کے واپس چلے جاتے ہیں اور دوبارہ چیک کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے ہیں یہاں ایک اہم بات ہے کہ چوک پنڈوڑی میں مہنگائی کا سبب دکاندار حضرات نہیں ہیں بلکہ مارکیٹ مالکان ہیں جنہوں نے کرائے اتنے زیادہ مقرر کر رکھے ہیں کہ دکاندار نہ مرنے کے قابل رہے ہیں اور نہ ہی جینے کے اس کے باوجود مارکیٹ مالکان کوشاں ہیں کہ کرایوں میں کسی بھی طرح مزید اضافہ ہو سکے مارکیٹ مالکان کی غلط پالیسیوں نے غریب دکانداروں کا بھر کس نکال دیا ہے جس کی وجہ سے بہت سے دکاندار حضرات نے چوک پنڈوڑی شہر سے بھاگنے ہی کو غنیمت سمجھا ہے مارکیٹ مالکان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی مارکیٹوں کی کامیابی کے لیے دکاندا ر حضرات کی مجبوریوں کا خیال کریں اگر ایسا نہ کیا گیا تو عنقریب شہر کی حالت یہ ہو جائے گی مارکیٹ مالکان منہ دیکھتے رہ جائیں گے

ضرورت اس امر کی ہے کہ اے سی کلر سیداں اور ٹی ایم اے چوک پنڈوڑی کے لیے اکم از کم ہفتہ میں ایک دن کے لیے دورہ کریں تاکہ انہیں اس شہر سے متعلق تمام مسائل سے آگاہی حاصل ہو تاکہ وہ یہاں کے باسیوں کے مسائل حقیقی طور پر جان سکیں قبل ازیں جب بھی کبھی تحصیل انتظامیہ کے کسی بھی افسر کا دورہ متوقع ہو تا ہے تو ناقص حکمت عملی کے باعث بات پہلے ہی زبان زد عام ہو جاتی ہے اور بہت سی عارضی تجاوزات ہٹا دی جاتی ہیں اور افسران کو سب اچھا کی رپورٹ مل جاتی ہے امن و امان کے حوالے سے ایم پی اے قمر السلام راجہ کی خصوصی کاوشوں سے یہاں ایک پولیس چوکی قائم کی گئی تھی لیکن اس کے بھی کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آسکے ہیں ۔{jcomments on}

اپنا تبصرہ بھیجیں