چوکپنڈوڑی نے ماڈل بازار کا روپ دھار لیا/شہزاد رضا

تجارت کے لیے کسی مرکز کا ہونا نہایت ضروری ہوتا ہے جہاں پر لوگ خرید و فروخت کے لیے آئیں اور اپنی ضرورت کے مطابق اشیاء کی خریداری کرسکیں۔جیسے تحصیل کلرسیداں میں ساگری بازار کو قدیمی بازار کہلوانے کی حیثیت حاصل ہے لوگ دور درازسے پیدل چل کر سودا سلف خریدنے آتے تھے آج بھی اگر آپ ساگری بازار جائیں تو سکھوں اور ہندؤں کی تعمیر کردہ عمارتیں موجود ہیں گو کہ ساگری بازار قدیمی ہے مگر ترقی نہیں کر پایا جس طرح چوکپنڈوڑی بازار نے بہت کم مدت میں ماڈل بازارکاروپ دھار لیااشیاء ضروریہ کی ہر شے یہاں دستیاب ہے پاکستان بننے سے قبل چوکپنڈوڑی شہر میں صرف دو دکانیں اور ایک ہوٹل تھا دوکانیں مقامی ہندؤں کی تھیں اور ہوٹل بابا فاروق کا تھا جو موہڑہ حیال کے رہائشی تھے ۔چوک پنڈوڑی بازار کے قیام کی صورت حال بارے جاننے کے لیے ڈاکٹر جہانگیر سے نشست کا اہتمام کیاان کی عمر اس چوہتر برس ہے ان کے زمانہ طالب علمی میں چوک پنڈوڑی بازار کا قیام عمل میں آیا انہوں نے بازار کوبنتے دیکھا ۔
ڈاکٹر محمد جہانگیر 1942کو گاؤں نندنہ جٹال جنجوعہ گھرانے میں پید اہوئے مڈل گورنمنٹ ہائی سکول بھکڑال چوکپنڈوڑی اور میٹرک گورنمنٹ ہائی سکول کلرسیداں سے کیا۔مسلم لیگی ہونے کی حیثیت سے انہیں اعجازالحق نے چیئرمین زکوۃ کمیٹی راولپنڈی بنایا۔مشرف دور میں وہ آٹھ سال بطور چیئرمین ضلع زکوۃ کمیٹی راولپنڈی کام کرتے رہے ۔سیاست میں وقتا فوقتا حصہ لیتے رہے اور گزشتہ تیس سالوں سے متفقہ طور پر چوکپنڈوڑی بازار کے صدر ہیں ۔ بازار کی تاریخ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب بازار میں دو دکانیں اور بابا فاروق کا واحد ہوٹل ہوا کرتا تھا اس زمانے میں بھی علاقے کے بزرگ چائے کی چسکی لینے ،اخبار پڑھنے اور علاقے کا حال احوال جاننے بازار آیا کرتے تھے یعنی اس وقت بھی رش ہوا کرتا تھا اور یہی بات تھی کہ یہاں بازار قائم ہوا۔ قیام پاکستان کے بعد ہم پیدل سکول اسی راستے سے گزر کے جایا کرتے اور آئے روز دکانوں میں اضافہ دیکھتے تھے۔ایوب دور میں روات تا کلرسیداں سڑک کی منظور ہوئی بعدازاں جنرل ٹکا خان نے اس سڑک کو مزید کشادہ کروایا۔جسے علاقے میں ترقی کا نیا دور داخل ہوا تھا۔چوک پنڈوڑی ہندؤں کی ملکیت میں سراں (مسافرخانہ)ہواکرتا تھا جہاں آکر لوگ ٹھہرتے تھے ۔سب سے پہلی ٹرانسپورٹ دوبیرن سے راولپنڈی تک شروع ہوئی تھی اگر کسی نے پنڈی جانا ہو تو ایک دن قبل اپنی سیٹ بک کروانی پڑتی تھی ورنہ بس میں جگہ نہیں ملتی تھی ۔رقبے کے لحاظ سے تحصیل کلرسیداں کی سب سے بڑی مسجد جو چوکپنڈوڑی میں بنائی گئی یہاں پر ایک تالاب ہو اکرتا تھا جو ہندؤں کی ملکیت تھا اور ہندؤں کی عبادت گاہ بھی قائم تھی جب 1947کو پاکستان آزاد ہوا تو اس کے بعد یہ تمام جگہ باوا عالم کو بطور مہاجر الاٹ ہوئی جو یہاں کے مقامی رہائشی تھے ۔کچھ ہی عرصہ بعد اس جگہ کو سرکاری طور پر نیلام کرنے کی کوشش کی گئی جب ہمیں اس بات کا علم ہوا تو اس وقت کے چیئرمین یوسی گف چوہدری نذیر (مرحوم)موہڑہ حیال والے،راجہ جان (مرحوم) بھکڑال والے اور میں نے یہ مقدمہ لڑا اور اس جگہ پر مسجدبنانے کا فیصلہ کیا گیا۔تالاب کی جگہ چھ کنال پر محیط تھی۔چیئرمین نذیر اور چیئرمین محبوب نے یوسی گف کے لیے بہت کام کیا چوک پنڈوڑی شہر یونین کونسل گف کا حصہ تھا یونین گف چند بڑی یونین کونسلز میں شمار ہوتی تھی جو بھی چیئرمین اس یوسی سے منتخب ہوتا تھا وہ علاقے میں اپنا اثرو رسوخ بھی رکھتا تھا ۔میں نے سیاست میں حصہ اس وقت لیا جب ہماری فیملی سے تعلق رکھنے والے راجہ بشارت اور راجہ ناصر کو سیاست میں عروج حاصل ہوا میں نے ان کے بڑے بڑے جلسے منعقد کروائے میرے اندر آج بھی وہی مسلم لیگ ہے جو قائد اعظم نے بنائی تھی ۔ بطور چیئرمین زکوۃ کمیٹی ہولی فیملی کا چارج جب میرے پاس تھا تو حکومت سے مستحق مریضوں کے علاج معالجہ کے لیے انتہا درجے کی کوششیں کیں اور اپنے علاقے کی بیوہ خواتین کی حد درجہ امداد کی۔میری کوشش ہوتی تھی کہ علاقے کے لوگ زیادہ سے زیادہ مستفید ہو سکیں۔روات تا کلر ڈبل روڈ بنتے وقت چوک پنڈوڑی میں بازار میں دو قبریں دریافت ہوئیں ان سے متعلق بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ دو نامعلوم عورتیں تھیں دور دراز سے لوگ پیدل سفر کرتے تھے ان کی موت کی وجہ تو معلوم نہیں ہو سکی تھی جب کوئی بندہ بھی ان کی شناخت نہ کر سکاتو ان کو امانتاً یہاں دفنا دیا گیا تھا۔پی پی کے چیئرمین محبوب نے بازار سمیت پوری یوسی کے لیے واٹر سپلائی اسکیم منظور کروائی تھی اور ہر گاؤں میں پائپ لائنیں بھی بچھائی گئیں کنویں بھی بنوائے گئے افسوس کے نئی آنیوالی حکومت نے اس کو چلنے نہ دیا۔چوک پنڈوڑی میں سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے دکاندار پانی خریدتے ہیں بازار میں واٹر سپلائی اسکیم کا نظام موجود ہونے کے باوجود نہیں چل رہا ۔حادثات زیادہ ہونے کی وجہ مین چوک میں بس سٹاپ ہیں دورویہ سڑک بنتے وقت میں نے یہ تجویز دی تھی کہ چھپر کے مقام پر بننے والا بائی پاس سے لے کر چوک پنڈوڑی بازار کی حدود تک ٹریفک کا سسٹم بازار سے باہر رکھا جائے متعلقہ لوگوں کی سنی ان سنی کی وجہ سے آج ہمیں روزانہ حادثات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔بس سٹاپس کی جگہ مین چوک سے دو سو میٹر فاصلے پر کروائی اس پر عمل در آمد کروانا ٹریفک وارڈنز کا کام ہے ۔حکومت وقت سے مطالبہ ہے کہ چوک پنڈوڑی کو سوئی گیس سے محروم نہ رکھا جائے ۔سوئی گیس کا سسٹم کا یہاں سے گزرنے کے باوجود اس شہر کو اس سہولت سے محروم رکھا جا رہا ہے ۔یہ بات حقیقت ہے کہ ق لیگ کے دور میں ترقی ہوئی۔تحصیل کا قیام عمل میں آنے کے بعد کلرسیداں کے لوگوں کوان کے حقوق ملے مانکیالہ برج کا قیام ق لیگ کے دور میں ہوا مگر شاباش ہے چودھری نثار کو جس نے ق لیگ کے منصوبوں کو سیاست کی نذر نہ ہونے دیا اور عوامی فلاح کے تمام منصوبوں کو مکمل کروایا اس بات کا کریڈٹ چودھری نثارعلی خان کو جاتا ہے کہ انہوں نے بہترین تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال،ریسکیو 1122،نادار دفاتر اور لینڈ ریکارڈ جیسی سہولیات دیں۔{jcomments on}

اپنا تبصرہ بھیجیں