چونترہ کے چراغ کے نیچے اندھیرا /مسعود جیلانی

چک بیلی خان کے گردو نواح میں کنٹرولڈ پولٹری فارم بکثرت قائم ہیں جنہوں نے نزدیکی آبادیوں کا جینا دوبھر کر رکھا ہے وادئ سواں کے سب سے بڑے گاؤں پڑیال کے گرد500گز تا 1500گز کے ایریا میں تین پولٹری فارمز بنے ہوئے ہیں جنہوں نے موضع پڑیال کے

مکینوں کا جینا محال کر رکھا ہے طرح طرح کی بیمار یاں پھیل رہی ہیں کچھ عرصہ قبل لوگوں نے احتجاج کیا جس میں لوگوں نے بدبو پر قابو پانے کے اقدامات، وڈالہ کس میں گندگی نہ پھینکنے ، گاؤں میں تعفن کے خاتمے کے لئے سپرے کا اہتمام کرنے اور پولٹری فارمز کے ٹریکٹروں ٹرالیوں سے تباہ ہونے والی سڑکوں کی مرمت کے مطالبات فارم انتظامیہ کے سامنے رکھے پولٹری کی صنعت میں نمایاں مقام رکھنے والی ایس بی نامی اس فرم کے مالک ڈاکٹر صادق نے نہ صرف یہ مطالبات مانے بلکہ اور مزید خیراتی کام کروانے کا کہہ کر گاؤں والوں سے ایک کمیٹی بنوائی مگر مطالبے صرف زبانی حد تک منظور کئے عملی طور پر ان پر کچھ نہ کیا

بدبو ،تعفن اور دیگر مسائل جب بدستور قائم رہے اور کمیٹی بھی صرف بے بس اور نام کی کمیٹی کی حد تک تھی تو تیس چالیس لے لگ بھگ نوجوان جن کی عمریں بیس سال کے بھگ تھیں جذباتی ہو کر اپنا مسئلہ حل کروانے نکلے نوجوانوں کے گاؤں سے نکلتے ہی فارم کے اندر سے فائرنگ شروع ہو گئی گیٹ کے پاس پہنچنے پر سیکیورٹی انچارج میجر مطلوب کے حکم پر فائر کروایا گیا جس سے بارہ سالہ سعید کو گولی مار کر زخمی کر دیا گیا گولی لگتے ہی کم عمر بچوں اور نوجوانوں کا جلوس بھاگ کھڑا ہوا اتنے میں اسی راستے نوکری سے واپس آنے والے ایک شخص عمران نے زخمی بچے کو بچانے کی کوشش کی میجر مطلوب کا سیکیورٹی عملہ عمران اور زخمی سعید دونوں کو اٹھا کر پولٹری فارم کے اندر لے گیا دیہات میں بات پتا چلنے پر پورا گاؤں امڈ آیا اور پولٹری فارم کے سامنے دھرنا دے دیا ڈی ایس پی صدر بیرونی اور ایس ایچ او چونترہ سمیت پولیس کی بھاری نفری بھی آ گئی بارہ سالہ سعید اور عمران ابھی تک پولٹری فارم کے اند ر یرغمال تھے

پولیس بھی انھیں نہ نکلوا سکی رات دو بجے جب شدید عوامی دباؤ پر ان دونوں کو پولٹری فارم سے باہر نکالا گیا تو ان کی حالت غیر ہو چکی تھی گاؤں والے جلدی میں سوزوکی کیری بک کر کے زخمیوں کو راولپنڈی ہسپتال لے گئے پولٹری فارم انتظامیہ نے پہلے زخمی سعید کی مدد کے لئے آنے والے عمران کو حبسِ بیجا میں لے جا کر تشدد کا نشانہ بنایا بعد میں انہیں ہسپتال لے جانے والوں ماسٹر شبیر ،سوزوکی کیری کے ڈرائیور محمد اکرم اور عمران کے دیگر دو رشتہ داروں رضوان اور غلام فرید پر ایف آئی آر کٹوا دی اس طرح بدبو ، گند گی اور تعفن سے بچانے کی آواز بلند کرنے والوں پر 26-08-2015کو پہلی ایف آئی آر نمبر180جبکہ27-08-2015کو دوسری ایف آئی آر نمبر182اور01-09-2015کو تیسری ایف آئی آر نمبر188درج کروا دی جن لوگوں کے خلاف ایف آر درج کی گئیں ان کے پاس اسلحہ تھا یا نہیں اس کے بارے میں ہم اپنی کوئی رائے نہیں دیتے البتہ اسی دیہات کے لوگوں کے بقول یہ لوگ نہتے تھے دوسری جانب پولٹری فارم کے سکیورٹی عملہ کے پاس اسلحہ رکھنا اس کو استعمال کرنا یا اسے لہرانے پر یقین اس لئے کیا جا سکتا ہے کیونکہ سکیورٹی پر مامور ہونے والے کے پاس اسلحہ ضروری ہی ہوتا ہے دوسرا سکیورٹی پر تعینات اکثر لوگوں کا تعلق موضع میال سے ہے جہاں ایسے لوگ بھی خاصی تعداد میں ہیں جو سیکیورٹی گارڈ تو کیا عام لوگوں کے لڑائی جھگڑوں میں بھی اپنا حصہ ڈالنا فرض عین سمجھتے ہیں ان اسلحہ استعمال کرنے والوں پر وزیرِ اعلیٰ پنجاب کی جانب سے نشری اشتہار کا وہ جملہ با کل لاگو نہ ہو اکہ جو اسلحہ لہرائے گا سیدھا جیل جائے گا

بدمعاشی کی سیاست پر یقین رکھنے والے سیاستدان بھی ان کے اس شوق کو خوب پروان چڑھاتے ہیں کرڑ اور میال کے کئی لوگ کئی قبضہ گروپوں دھونس کے کاروبار کرنے والے لوگوں نے اپنے پاس لڑائی کے لئے ملازم رکھے ہوئے ہیں جو اس علاقے کی قیادت کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ آخر کون ہیں وہ لوگ جو انہیں پروان چڑھا رہے ہیں کیا یہ ان کے کوئی مخالف ہیں یا اسی میال گاؤں سے تعلق رکھنے والے جناب چوہدری نثار علی خان صاحب کے ذاتی امور کے ذمہ دار شیخ محمد اسلم صاحب کی طرف سے انہیں کوئی حمایت مل جاتی ہے انتہائی قابلِ غور بات ہے کہ موضع پڑیال جناب چوہدری نثار علی خان صاحب کے آبائی گاؤں چکری سے اتنا دور ہے کہ شاید چوہدری صاحب اپنے ذاتی چوبارے کی چھت پر کھڑے ہوں تو انہیں پڑیال میں ہونے والی حرکات و سکنات بغیر دور بین کے بھی نظر آ جائیں اور ان کے ذاتی امور کے ذمہ دار شیخ محمد اسلم کا گاؤں میال تو اتنا قریب ہے کہ پڑیال کی چیخ و پکار کی آواز ان کے گاؤں میال تک پہنچ سکتی ہے اتنے دنوں سے پڑیال گاؤں کے لوگوں اور پولٹری فارم کی انتظامیہ کے درمیان میدانِ جنگ بنا رہا لیکن پورے ملک کے امن و امان کے ذمہ دار وزیرِ داخلہ جناب چوہدری نثار علی خان نے اپنے چوبارے سے ادھر پڑیال کی جانب کوئی نظر اٹھائی اور نہ ہی ان کے کارِ خاص شیخ محمد اسلم اپنے پڑوسیوں کا حال پوچھا لوگ تو ان باتوں میں شیخ صاحب کو ہی موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں

لیکن ان الزامات کا جواب شیخ صاحب بذاتِ خود ہی بہتر دے سکتے ہیں لوگ تو 1998میں جناب چوہدری نثار علی خان صاحب کے ایک سیاسی مخالف چوہدری محمد افضل پر موضع میال کے ایک آدمی کی مدعیت میں کتے کو زخمی کرنے کے مقدمے میں دو ماہ تک جیل بھیجنے والے واقعے کو بھی زیرِ موضوع رکھے ہوئے ہیں جس میں ایک کتے کا مقدمہ پانچ آدمی بھگت کے آئے ہیں ان کے ذمے کتے پر حملہ ا کے وقت آتشیں اسلحہ کا استعمال بھی ڈالا گیا مگر آج اسی گاؤں میں انسانوں کی ایک بڑی آبادی بدبو سے مر رہی ہے احتجاج پر سرمایہ دار اپنا اثر اور پیسہ استعمال کر رہا ہے مگر اس ملک کے امن کے سب سے بڑے ذمہ دار اور ان کے کارِ خاص کے کان پر جوں تک نہیں رینگی چوہدری صاحب لوگ 1998ء میں کتے کے واقعے میں آپ کے لوگوں کی دلچسپیاں اور آج انسانوںیعنی وادئ سواں کے سب سے بڑے گاؤں پر ایک سرمایہ دار کے ظلم، اور ریاستی مشینری کے پیسے کے زور پر استعمال کے موقع پر آ پ کی خاموشی پر تنقید کر رہے ہیں جنابِ عالی ! آپ نے ظلم کے ہاتھ روکنے کی ذمہ داری لی ہوئی ہے اور آپ کے گھر کے پاس کیا ہو رہا ہے ذرا دھیان کیجئے۔{jcomments on}

اپنا تبصرہ بھیجیں