چونترہ کا سول ویٹنری ہسپتال:ماجی کی یاد اور گم ہوتا احساس

راولپنڈی کے دیہی علاقے میں واقع ہمارا قصبہ چونترہ، اپنی تاریخی حیثیت، زرخیز زمین، اور تہذیبی روایت کے ساتھ ساتھ ایک ایسے ادارے کا بھی گواہ ہے جو آج خاموش ہے، مگر ماضی کی ذمہ داریوں کی گونج اپنے اندر سنبھالے ہوئے ہے یہ راولپنڈی تحصیل ہیڈکوارٹر ویٹنری ہسپتال چونترہ ہے۔ یہ ہسپتال آج بھی موجود ہے۔ دروازے بھی ہیں، دیواریں بھی، رجسٹر بھی اور میز بھی۔ لیکن ان سب کے بیچ ایک خلا ہے شاید جذبے کا، فرض کا، یا اس خلوص کا جو کبھی یہاں کا پہچان ہوا کرتا تھا۔

مدتوں پہلے میں اور میرے ایک صحافی دوست نے ایک فیچر کی تحقیق کے دوران میں اس ہسپتال کے پرانے ریکارڈ کو کھنگالا وہاں کے ویٹنری ڈاکٹر نے بڑی شفقت سے پرانے رجسٹر دکھائے۔ ایک پرانی الماری کے اندر، وقت کی گرد سے ڈھکے ہوئے وہ موٹے موٹے رجسٹر جب کھلے، تو یوں لگا جیسے ہم کسی خاموش آرکائیو میں نہیں، کسی بولتی ہوئی یادداشت گاہ میں کھڑے ہیں۔ ورق الٹے، تو تحریریں سامنے آئیں۔ انگریز دور کی، صاف، ترتیب سے لکھی ہوئی۔ جانوروں کے نام، مالکان، بیماریوں کی تفصیل، اور حیرت کی بات، زچگی کی متوقع تاریخیں تک درج تھیں۔ ایک اندراج پر نظر ٹھہر گئی:
”جانور کی حالت تشویشناک ہے، رات کو موجودگی یقینی بنائی جائے۔“
یہ ایک سادہ جملہ نہیں تھا۔ یہ ایک نظام کا عکس تھا جس میں جانور بھی ”ریاستی ذمے داری“ کے زمرے میں آتے تھے۔

گھر آ کر میں نے یہ سب اپنی دادی کو سنایا، جنہیں ہم ما جی کہتے تھے۔ ما جی بزرگ تھیں، سادہ دل اور سچّی مشاہدہ کار۔ انہوں نے میری بات سنی، سر ہلایا، اور کہا: ”بیٹا، اُس وقت کے انگریز ڈاکٹر صرف رجسٹر نہیں بھرتے تھے، جانوروں کا دل سے خیال رکھتے تھے۔ انہیں ہر گاؤں کا حال معلوم ہوتا تھا۔ چوکیداروں سے پوچھ کر وہ یہ تک جانتے تھے کہ کس کے جانور کو کب بچہ ہونا ہے۔” پھر کچھ دیر بعد کہا: ”اکثر بغیر اطلاع کے آ جاتے تھے۔ دروازہ کھٹکھٹاتے اور کہتے، ہمیں معلوم ہے آپ کی گائے یا بھینس کے بچہ ہونے کا وقت ہے، ہم معائنہ کرنے آئے ہیں کہ کوئی پیچیدگی تو نہیں!
اگر پیچیدگی کا خدشہ ہوتا تو ساری رات کسی کھونٹے کے پاس کھرلی پر بیٹھے رہتے۔ دوا خود دیتے، چارہ خود دیکھتے، پیسے کی بات نہ کرتے۔ وہ فرض سمجھتے تھے، احسان نہیں۔”ما جی کی سادہ باتیں کسی تاریخ کی کتاب کا حوالہ نہیں تھیں وہ اپنی زندگی کے صفحے سے پڑھ کر سنا رہی تھیں۔ آج وہی ہسپتال چونترہ میں موجود ہے۔ عمارت نئی بن چکی ہے۔ شاید رجسٹر بھی وہی پڑے ہوں۔ لیکن اب اس میں وہ جذبہ، وہ خلوص، وہ تحرک کم دکھائی دیتا ہے۔

جہاں کبھی انگریز ڈاکٹر دور دراز گاؤں تک پہنچتے تھے، آج وہاں انسان بھی ہسپتال کے دروازے پر سوال لیے کھڑے ہوتے ہیں اور کوئی جواب دینے والا نہیں ہوتا۔ یہ مضمون صرف ماضی کی یاد نہیں، ایک سوال ہے۔ اگر جانوروں کے لیے ایسا مکمل نظام قائم ہو سکتا تھا، تو آج انسانوں کے لیے کیوں نہیں؟ اگر ماجی کے زمانے میں ایک گائے کی زچگی بھی ریاست کی نگاہ میں تھی، تو آج ایک بیمار انسان بھی بیتوجہی کا شکار کیوں ہے؟ چونترہ کا ویٹنری ہسپتال آج بھی کھڑا ہے پر خاموش۔ اور ماجی کی باتیں آج بھی زندہ ہیں لیکن معلوم نہیں اب یہاں کیوں اور کب ہم نے فرض کو فائل میں بدل دیا ہے؟

اپنا تبصرہ بھیجیں