چونترہ ایک پھر نظرا نداز ہوگیا

مسعود جیلانی‘ نمائندہ پنڈی پوسٹ
کچھ وقت قبل سابق وفاقی وزیر داخلہ جناب چوہدری نثار علی خان نے تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال راولپنڈی کا سنگ بنیاد روات کے مقام پر رکھا تحصیل راولپنڈی عرصہ دراز سے تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال سے محروم تھی راولپنڈی کے جنوبی علاقے جو تحصیل راولپنڈی کے دیہاتی علاقے پر مشتمل ہیں یہی تحصیل راولپنڈی کا اکثریتی علاقہ ہے ان لوگوں کو صحت کی سہولت پانے کے لئے کسی بڑے ہسپتال کی شکل میں کم ازکم60کلومیٹر کا فاصلہ لازمی طے کرنا پڑتا ہے ایمرجنسی حالات میں کئی لوگ راستے ہیں

ہی دم توڑ جاتے ہیں چوہدری نثار علی خان نے جب کلر سیداں کے لئے1122سروس کا اجراء کیا تھا تو چک بیلی خان اور چونترہ کے لوگوں نے بھی یہ امید باندھ لی تھی کہ اب شاید یہ سروس ان کے ہاں بھی شروع کر دی جائے لیکن کچھ نہ ہوا اس کے بعد علاقے میں بڑے ہسپتال کی باز گشت اکثر حکومتی طرفداروں کے حلقوں میں سنائی دی جاتی رہی آخراس کا اعلان ہوا لیکن جب سنگِ بنیاد روات کے مقام پر رکھا گیا تو یہی محسوس کیا گیا کہ یہ بڑا ہسپتال بھی اب شہری آبادی کے لئے ہی بنایا جائے گا

روات کا مقام راولپنڈی سے صرف 19کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ان لوگوں کے لئے راولپنڈی اور اسلام آباد کے دیگر ہسپتال انتہائی کم فاصلے پر ہیں لہٰذا نہی لوگوں کے لئے ہسپتال بنانا سمجھ سے بالا تر ہے روات کے مقام پر ہسپتال بنانے کے فیصلہ کے وقت کسی نے جناب چوہدری نثار علی خان کو یہ مشورہ نہیں دیا کہ اس ہسپتال کو دیہی علاقے جوڑیاں وغیرہ میں منتقل کر کے دیہی آبادی کو ایسی سہولت فراہم کر دی جائے

جس کی ان لوگوں کو ایک طویل عرصہ سے ضرورت ہے لیکن شاید یہ ہوا کہ جیسے کہا جاتا ہے کہ ن لیگ میں چوہدری نثار علی خان صاحب کے سامنے ایسی رائے کی کوئی جرأت ہی نہیں کرتا اور نہ ہی وہ کسی کی سنتے ہیں اور شاید سنوانے والے بھی اپنے ذاتی کام تک ہی محدود رہتے ہیں اجتماعی کام سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہوتا خیر بھلا ہو تحریکِ انصاف ضلع راولپنڈی کے نائب صدر چوہدری امیر افضل کا جنہوں نے اپنے پبلک سیکرٹریٹ میں لوگوں کو جمع کر کے اور ن لیگی مقامی راہنماؤں سے ملاقات کر کے اس ہسپتال کو جوڑیاں کے مقام پر لانے کے لئے کوششوں کا آغاز کیا

مجھے تو نہیں یقین کہ کسی ن لیگی نے اس معاملے کو جناب چوہدری نثار علی خان صاحب کے زیرِ نظر لایا ہو کیونکہ چوہدری نثار علی خان صاحب کے سامنے اپنا مسئلہ بیان کرنا کوئی آسان کام نہیں دوسرا اگر کہیں سے گھوم پھر کر چوہدری امیر افضل کے حوالے سے یہ بات چوہدری نثار علی خان صاحب کے کان میں پہنچی بھی ہو تو پھر اس کام کا نہ ہونا یقیناً پکا ہو گا کیونکہ چوہدری صاحب تو مخالف کی رائے خواہ کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو قبول ہی نہیں کرتے مجھے یاد ہے چک بیلی خان کی واٹر سپلائی سکیم کے لئے ق لیگ کے راہنماجناب راجہ محمد بشارت نے کچھ گرانٹ منظور کی تھی

جس سے واٹر سپلائی سکیم تو نہ بن سکی البتہ کچھ پائپ زمین میں ضرور دبا دئیے گئے تھے بعد میں چوہدری نثار علی خان صاحب نے برسرِ اقتدار آنے کے بعد ایک نئی واٹر سپلائی سکیم کا اعلان کیا لوگوں نے پرانے پائپوں کو بھی کام میں لانے کا کہا تو چوہدری صاحب نے کہا کہ میں اپنی سکیم کا پانی راجگان کے دئیے ہوئے پائپوں سے گذارنا ہی نہیں چاہتااس طرح لوگوں کے ٹیکسوں سے حاصل شدہ رقم کے وہ پائپ زنگ آلود ہو کر ختم ہو گئے لہٰذا ان حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے آثار یہی نظر آ رہے ہیں کہ چوہدری امیر افضل کی جانب سے دی جانے والی رائے اگر چہ بہت اچھی اور عوامی مفاد کی ہے لین چوہدری نثار علی خان کے مخالف کی رائے ہونے کی وجہ سے شاید اس پر عملدرآمد نہ ہو سکے اور یہ بھی اندیشہ ہے کہ تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال روات میں بنے کے بعد شاید کوئی حکومتی پالیسی ہی نہ ہو جس سے سالوں بعد بھی پسماندہ دیہاتی علاقہ کو ہسپتال مل سکے

اپنا تبصرہ بھیجیں