یوں تو اُس مالکِ ارض و سما کی عطا کردہ نعمتوں اور عنایتوں کا شمار یا احاطہ کوئی کرسکا۔ اور نہ ہی ایسا ممکن ہے لیکن بشریت اور آدمیت کے نقطہ نظر سے افضل ترین اور منفرد نعمت ’’تندرستی‘‘ اور ’’ آزادی‘‘ ہے۔ جس کی قدر و منزلت ایک معذور یا غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا فرد ہی جانتا ہے۔ دورِ حاضر میں مقبوضہ کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں پر غاصب اور ظالم حکمرانوں کے مظالم ہمیں اِس نعمت کا احساس دلانے کے لئے کافی ہیں۔ آزادی کی تڑپ اور حصول کی جدوجہد میں وہ ہزاروں جانوں کی قربانی اور نہ جانے کتنی عصمتوں کے تقدس کی پامالی کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں۔ ایک غلام قوم یا فرد کو اپنی سوچ پر اختیار حاصل ہوتا ہے اور نہ ہی کسی شخصی عمل پر۔ اُسکا ہر عمل اور فعل ایک کٹھ پُتلی کی مانند ہوتا ہے جس کی ہر قسم کی حرکات و سکنات کی ڈور کسی اور کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ اُس ذات یکتا و کریم کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اُس نے قائد اعظم کی قیادت میں ہمارے سیاسی اکابرین کو حصولِ آزادی کا جوش و ولولہ، حوصلہ اور ہمت عطا کی۔ جن کی کوششیں اور مدبرانہ صلاحیتیں ہمیں ایک خودمختار اور آزاد اسلامی مملکت دلانے میں کامیابی سے ہمکنار ہوئیں۔ جس کی آزاد فضاؤں میں آج ہم سانس لے رہے ہیں۔ جہاں ہمیں اپنے قول و فعل پر مکمل اختیار حاصل ہے۔ ہندو۔مسلم عرصہ دراز تک ایک ساتھ رہنے کے باوجود ہم خیال نہ بن سکے۔ اِس کی بنیادی وجہ ہندو اکثریتی آبادی کا مسلم آبادی سے متعصبانہ اور امتیازی سلوک تھا۔ جس کی وجہ سے دو قومی نظریے نے جنم لیا جو ہماری آزادی کی بنیاد اور سبب بنا۔ اِس رویّے کا عملی ثبوت 1937 تا 1939 کانگریسی وزارتوں کے مسلم اور اِسلام دشمن سلوک سے مل گیا تھا۔ چنانچہ اپنے آئندہ لائحہ عمل کے تعین کے لئے 23 مارچ 1940 کو مسلم لیگ کے ستائیسویں اجلاس کا انعقاد منٹو پارک (موجودہ اقبال پارک) لاہور میں ہوا۔ جہاں لاکھوں فرزندانِ توحید کی موجودگی میں قائدِ اعظم کی زیرِ صدارت اجلاس میں شیرِ بنگال مولوی فضل الحق نے قراردادِ لاہور (قراردادِ پاکستان) پیش کی جسے وہاں موجود دوسرے سیاسی اکابرین کی تائید سے متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔ اور یُوں ایک آزاد مسلم وطن کے مطالبے سے اتفاق کیا گیا۔ اِس قرارداد کی منظوری سے مسلم لیگ کی حکمتِ عملی میں ایک واضح تبدیلی آئی اور اُس نے حصولِ پاکستان کو اپنا نصب العین بنالیا۔ مارچ 1947 میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے بطور وائسرائے ہند چارج سنبھالتے ہی انتقالِ اقتدار پر تبادلہء خیال کرکے ایک مسودہ تیار کیا جس کا باقاعدہ اعلان 3 جون 1947 کو ہوا۔ جس کے اہم نکات میں سے ایک تقسیمِ ہند کے بعد مسلم اکثریتی صوبوں پر مشتمل ایک آزاد ریاست کا قیام بھی تھا۔ چنانچہ قانونِ آزادئ ہندکی رُو سے 14 اگست 1947 کو ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کو صورت میں
قدرت نے ہمیں ایک انمول تحفہ عطا کیا جس کے پہلے گورنرجنرل قائدِ اعظمؒ اور وزیرِ اعظم خان لیاقت علی خان مقرر ہوئے لیکن حصولِ آزادی کے تھوڑے ہی عرصہ بعد یہ دونوں رہنما ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جُدا ہوگئے جو اِس ملک کی بڑی بدقسمتی ثابت ہوئی۔ لیڈر شپ کے فقدان نے آج ہمیں بہت سی برائیوں میں مبتلا کردیا ہے۔ اور اِسی وجہ سے آزادی کا جذبہ بھی دھندلا اور مانندپڑ چکا ہے۔ اور اِس دن کو محض سرکاری تعطیل، سرکاری عمارات پر چراغاں اور حکومتی سطح پر ایک رسمی سی تقریب کے انعقاد تک محدود کردیا گیا ہے۔ آزادی ایک پر خطر اور کانٹوں بھرا سفر ہے جس کا حصول کٹھن اور حفاظت اِس سے بھی زیادہ کٹھن۔ بے لوث اور حب الوطن سیاسی اکابرین کی جدوجہد کے نتیجے میں آزادی کی نعمت تو ہمیں مل گئی مگر اجتماعی کوتاہیوں کی بدولت اِس کی حفاظت میں بُری طرج ناکام ہوگئے اور آدھا ملک گنوا دیا۔ اِس کے باوجود ماضی سے کوئی سبق نہ سیکھا۔ اور اِس تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے وطنِ عزیز کو آج انتہا پسندی، دہشت گردی، اور کرپشن جیسے کینسر میں مبتلا کردیا اور بچے ہوئے وجود کو برقرار رکھنے کی فکر میں ہیں۔ قومی نصب العین کو نظر انداز کرنے والی اقوام اپنی ساکھ اور وجود کھو دیتی ہیں۔ اور اِس وقت ہمیں کچھ ایسی ہی صورتِ حال کا سامنا ہے۔ آج پاکستانیت دنیا کی نظروں میں نفرت اور حقارت کی علامت سمجھی جانے لگی ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں کا سدِباب کرکے اپنے حال اور مستقبل کو خوش حالی کی جانب گامزن کریں۔ آئیے آج اِس مبارک موقعہ پر اِس عہد کی تجدید کریں کہ ہم اِس ملک کی ترقی کے لئے اپنے پورے ایمانی اور قومی جذبے سے کام کرکے اِسے حقیقی معنوں میں ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ بنائیں گے۔ انشاء اللہ۔{jcomments on}