چودھری نثار علی خان کے مدمقابل؟

’سات امیدواروں میں سے دوکو زر کثیر دے کر بٹھایاگیا،تیسرے کو ڈرا دھمکا کر علیحدہ کیا،چوتھے کو سفیر بنا کر باہر بھجوانا پڑا،دوکمال درجے کے ضدی نکلے

،ایک کو زدوکوب کرایا تومانا ،دوسرے نے مشکوک حالت میں داعی اجل کو لبیک کہا‘‘ممتاز مزاح نگار شفیق الرحمن کے ان جملوں کا اطلاق کم ازکم این اے 52پر نہیں ہوسکتا۔کیونکہ اول تو یہاں سات امیداروں کے کھڑا ہونے کی کوئی توقع نہیں اور اگرایسا ہوبھی جائے تو انھیں بٹھانے کے لئے مذکورہ بالا حربوں کی قطعاً ضرورت پیش نہیںآئے گی۔اس کی وجہ کیاہے ؟
پاکستان پیپلزپارٹی کے راجہ شاہد ظفر کا تعلق بھی این اے 52 سے ہے اور وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے معتمد ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔وفاقی وزیر بھی رہے ۔سیاسی تجزیہ نگار پاکستان پیپلزپارٹی کے جن چند رہنماؤں کو مسٹر کلین کا خطاب دیتے ہیں ان میں راجہ شاہد ظفر بھی شامل ہیں۔انھوں نے صاف ستھری سیاست کی ،سنجیدہ مزاج ،اجلی شخصیت اور پارٹی سے وفارداری ان کے خاص اوصاف ہیں، لیکن ان سب اوصاف کے باوصف منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے۔ راجہ شاہد ظفر انتخابی سیاست میں شکست کے بعد آہستہ آہستہ انتخابی سیاست سے کنارہ کش ہوئے اور اب تو پارٹی نے انھیں سابقہ لگا کر پرے ہٹا رکھاہے۔ انھیں کھڈے لائن لگادیاگیا یا خود انھوں نے اپنے لئے یہ چوائس کی۔اس وقت اگر وہ سیاست میں متحرک ہوتے اور پارٹی ان پر نظر التفات رکھے ہوئے ہوتی تو اس حلقہ میں پاکستان پیپلزپارٹی کی کم ازکم موجودہ حالت نہ ہوتی۔این اے 52اور برصغیر پاک وہند کی مشترکہ خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ ہر نئے آنے والوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔جس طرح برصغیر نے آریاؤں،عربوں اور مغلوں کو اپنے سینے سے لگایا ،اور ان کے حق حکمرانی کودل وجان سے تسلیم کیا بالکل اسی طرح این اے 52کے ووٹرز نے پہلے دوبار محمداعجاز الحق کو، پھردوبار چودھری نثار علی خان کواور ایک بار کپٹن صفدر کو خوش آمدید کہااور ان کے حق حکمرانی کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ دیدہ ودل فرش راہ کئے۔محمداعجاز الحق نے دوبار یہاں سے منتخب ہونے کے بعد اس حلقہ کے لوگوں سے وہی سلوک کیا تھا جو دس بار وردی میں منتخب کرانے کا نعرہ لگانے والوں نے پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ اتحاد کرکے مشرف کا کیا ہے ۔جب اعجاز الحق اس حلقہ کے لوگوں سے چشم پوشی اختیار کئے ہوئے تھے اگر راجہ شاہد ظفر سیاسی رابطوں کو از سر نو منظم کرتے تو آج حالات یکسر مختلف ہوتے ۔بعدازاں جب چودھری نثار علی خان پہلی بار یہاں سے منتخب ہوئے تودور مشرف کے باعث وہ اس حلقہ کو وقت کوئی میگا پراجیکٹ نہ دے سکے لیکن پاکستان پیپلزپارٹی نے اس حلقہ میں اپنی بہتری کے لئے کبھی سوچنے کی کوشش نہ کی اور اس خلا کا کوئی بھی خاطر خواہ فائدہ نہ اٹھا سکی۔اب جب کہ دوسری بار چودھری نثار علی خان یہاں سے منتخب ہوئے توانھوں نے حسب وعدہ پچھلی کسریں نکال کے رکھ دیں۔اربوں کے ترقیاتی کام مثلاً بائی پاس،ایشیاء کا پہلا خواتین ہسپتال،واٹرسپلائی کے لئے کروڑوں روپے کے فنڈز،گلیات اور سڑکات کی پختگی ،سکولوں کالجوں کے نئے بلاکوں کی تعمیراور اسی نوع کے متعددمیگا پراجیکٹ دے انھوں نے حلقہ میں اپنی مضبوط گرفت کو مضبوط تر کرلیاہے ۔اپنے حلقہ انتخاب میں اربوں کے ترقیاتی کاموں کی وجہ سے اب ان کا مقابلہ خاصامشکل کام نظر آرہاہے ۔یہی وجہ ہے کہ اب تک ان کے مقابلے میں کسی بھی دیگر سیاسی جماعت کی جانب سے دھڑلے کے ساتھ کوئی امیدوار میدان میں نہیں اتراہے۔ان کے مضبوط امیدوار ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہی ہے کہ اس وقت تک کسی بھی پارٹی کی جانب سے متفقہ طورپر کوئی امیدوار ان کے مقابل نہیں آیاہے ۔حالیہ ضمنی انتخابات کے بعد پاکستان مسلم لیگ(ن) کے لب ولہجے میں بڑی حد تک تبدیلی آچکی ہے ،دوتہائی اکثریت کے دعوے بھی سنائی دے رہے ہیں ۔پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ق) کی خواہش ہے کہ اس حلقہ سے کوئی جاندار امیدوار سامنے لایا جائے۔سابق ڈپٹی سپیکرحاجی نواز کھوکھر نے یہاں سے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا تھا اور اپنی انتخابی مہم بھی شروع کردی تھی ۔ان کی جانب سے یہاں ایک دوسیاسی اجتماعات کے باعث الیکشنی ماحول بن گیاتھا لیکن اب مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ والی صورت حال دکھائی دے رہی ہے ۔شنید ہے کہ اس حلقہ سے ڈپٹی وزیراعظم چودھری پرویزالہیٰ کے دست راست محمدبشارت راجہ پاکستان مسلم لیگ(ق) اور پاکستان پیپلزپارٹی کے مشترکہ امیدوار کے طورپر سامنے لائے جارہے ہیں۔یہ سوال اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے کہ اس وقت اس حلقہ میں پاکستان مسلم لیگ(ق) کاووٹ بینک محفوظ ہے یا اس میں اربوں کے ترقیاتی کاموں کی وجہ سے نقب لگ چکی ہے؟ماضی میں مسلم لیگ(ق) نے اس حلقہ میں اربوں کے ترقیاتی کام کرائے لیکن انھیں قومی اسمبلی کی اس نشست پر بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا ، تو کیا اس وقت وہ مقابلے کی پوزیشن میں ہے؟اس کے علاوہ کیا پاکستان پیپلزپارٹی کے کارکن مسلم لیگ(ق) کے امیدوار کو ووٹ دینے میں بخل کا مظاہرہ نہیں کریں گے؟ایسے ہی دیگر سوالات ہیں جو کہ جواب طلب ہیں۔جہاں تک پاکستان تحریک انصاف کا تعلق ہے،لاہورکے بعد کراچی کے بڑے جلسوں نے جو رنگ جمایا تھا اب وہ رنگ پھیکا پڑتادکھائی دے رہاہے ۔این اے 52سے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے کون امیدوار ہوگا؟کون سے امیدوار اس حلقہ میں قسمت آزمائی کا ارادہ رکھتے ہیں ؟فی الحال اس بارے کسی کو کچھ معلوم نہیں اور سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق پارٹی کی جانب سے اس حلقہ پر وقت ضائع نہ کرنے کا بھی عندیہ دیا جارہاہے ۔ جماعت اسلامی کے امیدوار یہاں سے اپنی انتخابی مہم عرصہ سے چلارہے ہیں لیکن اس حلقہ میں جماعت اسلامی کا اثر ورسوخ انتخابات کے نتائج پر کبھی بھی اثراندازنہ ہواہے۔اس لئے اس حلقہ سے اول تو سات امیدواروں کے آنے کی توقع نہیں اور اگرآبھی جائیں توان سات امیدواروں میں سے کسی کو بھی بٹھانے کے لئے کوئی ایسا حربہ اختیار کرنے کی ضرورت نہ ہوگی جو کہ شفیق الرحمن نے ’’ہمارا مقامی سیاست مین حصہ لینا ‘‘کے عنوان سے تحریرکئے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں