
خطہ پوٹھوہار کی سیاست کی ہم بات کریں تو اس میں چند ایسی سیاسی شخصیات ہماری سیاست کا حصہ رہی ہیں یا تاحال ہیں جنکے بغیر پوٹھوہار کا سیاسی منظر نامہ مکمل نہیں ہوتا ان سیاسی شخصیات نے سیاست میں اپنا لوہا منوایا اور ایک منفرد و نمایاں مقام حاصل کیا ہے ان شخصیات میں سے ایک شخصیت چوہدری نثار علی خان کی ہے جنھوں نے پاکستانی سیاست میں اپنا نام اور مقام بنایا چوہدری نثار علی خان کے دادا کا نام چوہدری سلطان تھا جو فوج میں تھے بتایا جاتا ہے کہ انکے دادا برٹش فوج کی طرف سے ہٹلر کے خلاف لڑنے گئے اور راستے میں عراق کے کسی مقام پر جاں بحق ہوئے انکا جسد خاکی بھی واپس نہیں آیا انکے دو بیٹے تھے چوہدری تاج محمد خان اور چوہدری فتح خان جس میں چوہدری تاج محمد خان چکری میں ڈیرہ سنبھالتے اور سیاسی اثر و رسوخ رکھتے تھے جبکہ چوہدری فتح خان فوج میں برگیڈیئر کے عہدے تک گئے اور ریٹائر ہوئے وہ ہندوستان کی تقسیم سے قبل کمیشن لے کر آئے تھے انکے بارے میں کہاں جاتا ہے کہ وہ ایوب خان کے بڑے قریب تھے وہ اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد ان ہی کے دور حکومت میں سیاست میں آئے اور صوبائی اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوئے چوہدری نثار علی خان 31 جولائی 1954 کو چکری گاؤں تھانہ چونترہ راولپنڈی برگیڈیئر فتح خان کے گھر پیدا ہوئے چوہدری نثار علی خان کی چار بہنیں اور ایک بھائی جنرل (ر) افتخار علی خان ہے جنکا انکی سیاست میں اہم کردار رہا ہے چوہدری نثار علی خان نے اپنی تعلیم لاہور کے ایک مشہور تعلیمی ادارے ایچی سن کالج اور آرمی برن کالج سے حاصل کی انکو عملی طور پر سیاست میں انکے والد صاحب نے متعارف کروایا تب جنرل ضیاء الحق کا دور تھا اور انھوں نے 1985 میں غیر جماعتی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات میں حصہ لیا اور کامیابی حاصل کرنے کے بعد ضیاء الحق کی مجلس شوری کے رکن بنے اور اس طرح وہ جنرل ضیاء الحق کی نظر میں بھی آگئے یہ وہ زمانہ تھا جب نواز شریف پنجاب میں اپنے عروج پر تھے اور دن بدن انکی مقبولیت بڑھتی جارہی تھی ایسے میں میاں نواز شریف کو ایسا دست راست چاہئیے تھا جو جی ایچ کیو یعنی آرمی کی سوچ سے آشنائی رکھتا ہو اس لیے یہ دونوں ایک دوسرے کے قریب آئے قربتیں بڑھتی گئی شروع میں تو میاں شہباز شریف کے ساتھ چوہدری نثار علی خان کی نہیں بنتی تھی مگر بعد میں دونوں کی آپس میں ایسی دوستی ہوئی جو آج تک برقرار ہے چوہدری نثار علی خان 1988 کے عام انتخابات میں دوسری مرتبہ ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور اس دوران وہ وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی کے طور پر مختصر عرصے کے لیے رہے اس کے بعد وہ 1990 کے عام انتخابات میں تیسری مرتبہ اسلامی جمہوری اتحاد کے ٹکٹ پر الیکشن میں کامیاب ہوئے اس دوران نواز شریف کی پہلی کابینہ میں 1990 سے 1993 تک بطور وفاقی وزیر پیٹرولیم و قدرتی وسائل رہے اسکے بعد 1993 کے عام انتخابات میں چوتھی مرتبہ وہ الیکشن لڑے اور قومی اسمبلی کے ممبر کے طور پر منتخب ہوئے اور اپوزیشن میں رہے اسکے بعد 1997 میں عام انتخابات ہوئے تو چوہدری نثار علی خان پانچویں دفعہ ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور اس دوران جب میاں نواز شریف وزیراعظم بنے تو یہ دوسری مرتبہ وفاقی وزیر برائے پیٹرولیم و قدرتی وسائل بنے اس دوران 1999 میں جب نواز شریف کی حکومت کو جنرل پرویز مشرف نے ختم کیا اور وہ قید اور اسکے بعد بیرون ملک جلا وطن ہوگئے تو انھوں نے پیچھے پارٹی کو سنبھالا دیے رکھا اس وقت جب میاں نواز شریف قید میں تھے تو جنرل پرویز مشرف چوہدری نثار علی خان سے براہ راست ملنے کے خواہشمند رہے مگر وہ ان سے نہ ملے کیونکہ وہ نواز شریف کو دھوکہ نہیں دینا چاہتے تھے رہائی کے بعد جب پارٹی کی جانب سے سرد مہری دکھائی گئی تو اس وقت بھی پرویز مشرف انکو اسپیکر اور بعد ازاں ق لیگ کا صدر بنانے کے خواہشمند رہے اور ان تک پیغام پہنچایا مگر وہ اس کے لیے راضی نہ ہوئے بلکہ اپوزیشن میں رہ کر ایک آمر کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور 2002 میں قومی اسمبلی کے چھٹی دفعہ ممبر منتخب ہوئے اس دفعہ انھوں نے دو حلقوں سے الیکشن لڑا رہا تھا ایک حلقے میں انکو شکست کا سامنا کرنا پڑا اپوزیشن میں ایک لمبا عرصہ کاٹنے کے بعد چوہدری نثار علی خان نے 2008 کے عام انتخابات میں دو سیٹوں پر الیکشن لڑا ایک حلقہ این اے 52 راولپنڈی جبکہ دوسرا این اے 53 راولپنڈی ٹیکسلاا تو وہ ان عام انتخابات میں ساتویں دفعہ قومی اسمبلی کی دونوں نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئے اور ممبر قومی اسمبلی بنے بعد میں انھوں نے حلقہ این اے 52 سے استعفیٰ دے دیا اور یہاں سے ضمنی انتخابات کے دوران مسلم لیگ ن کے کیپٹن (ر) صفدر منتخب ہوئے چوہدری نثار علی خان 2008 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں وفاقی وزیر برائے ایگریکلچر و لائف سٹاک رہے مگر اس وزرات پر وہ مختصر عرصے کے لیے رہے کیونکہ مسلم لیگ ن پاکستان پیپلز پارٹی سے علیحدگی کر کے اپوزیشن میں آگئی تھی تو اس دوران چوہدری نثار علی خان ستمبر 2008 میں چوہدری پرویز الہی کے استعفیٰ کے بعد قائد حزب اختلاف بنے اور بطور اپوزیشن لیڈر ڈٹ کر حکومت کا مقابلہ کیا اور اس دوران 2011 میں وہ پہلے ممبر نیشنل اسمبلی تھے جو چیئرمین پبلک اکاونٹس کمیٹی منتخب ہوئے 2013 کے عام انتخابات میں دوبارہ انھوں نے الیکشن دونوں قومی اسمبلی کے حلقوں سے لڑا اس دفعہ وہ صرف این اے 52 سے کامیاب ہوئے اور بطور ممبر نیشنل اسمبلی آٹھویں دفعہ منتخب ہوئے 2013 کے عام انتخابات میں وہ ایک صوبائی اسمبلی کی نشست پر بھی آزاد حیثیت سے الیکشن لڑے جو جیتنے میں کامیاب ہوئے مگر انھوں نے بطور ممبر نیشنل اسمبلی حلف اٹھایا تو انکو یہ صوبائی اسمبلی کی نشست چھوڑنی پڑی اس دوران جب میاں نواز شریف تیسری دفعہ اس ملک کے وزیراعظم بنے تو چوہدری نثار علی خان انکی کابینہ میں وفاقی وزیر داخلہ بنے یہ وہ واحد وزیر داخلہ پاکستان کی تاریخ میں رہے ہیں کہ جب یہ پریس کانفرنس کرتے تھے تو چاہے وہ دو گھنٹے کی پریس کانفرنس ہو میڈیا انکو دکھاتا تھا اور وہ واحد سیاست دان تھے کہ جب وہ پریس کانفرنس کرنے آتے تھے تو کمرے میں داخل ہونے سے لے کر انکے جانے تک سب میڈیا کور کرتا تھا انھوں نے بطور وفاقی وزیر داخلہ بہت احسن اقدام کیے جنکی وجہ سے پارٹی کے اندر بھی انکی مخالفت رہی مگر وہ اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے 2017 میں جب میاں نواز شریف کے پانامہ پیپرز کے بعد مستعفی ہوئے تو انکے پارٹی سے اختلافات بھی شروع ہوگئے جب شاہد خاقان عباسی وزیراعظم بنے تو اس دروان چوہدری نثار علی خان کو متعدد دفعہ بولا گیا کہ وہ وفاقی وزیر کے عہدے پر آجائیں مگر انھوں نے انکار کر دیا اور اس طرح مسلم لیگ ن سے انکی راہیں آہستہ آہستہ جدا ہونا شروع ہوئی فروری 2018 میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے انکو اپنی جماعت میں آنے کی دعوت دی مگر انھوں نے انکار کر دیا چوہدری نثار علی خان کو متعدد دفعہ وہ اوپن فورم پر اور اندرونی طور پر بھی پیغام بھیجتے رہے کہ وہ تحریک انصاف کو جوائن کریں مگر وہ بضد رہے کہ انھوں نے شمولیت اختیار نہیں کرنی کیونکہ انکو کئی نہ کئی یقین تھا کہ جس جماعت کو انھوں نے اپنی زندگی کے 35 سال دیے وہ انکو تنہا نہیں چھوڑے گی بلکہ 2018 کے عام انتخابات میں انکو ٹکٹ دے گی مگر پارٹی نے انکو ٹکٹ نہیں دیا بلکہ انکی جگہ اپنی جماعت کے انجینئر قمر اسلام راجہ کو انکے مقابلے میں ٹکٹ دیا اس دوران چوہدری نثار علی خان نے چار حلقوں میں سے بطور آزاد امیدوار الیکشن لڑا جن میں دو قومی اسمبلی جبکہ دو صوبائی اسمبلی کی نشستیں تھی یہ وہ واحد حلقہ تھا جس پر پورے پاکستان کی نظریں لگی ہوئی تھی اور بظاہر یہی لگ رہا تھا کہ چوہدری نثار علی خان یہاں سے جیت جائے گے مگر پارٹی کے اختلافات کے سبب جب دو امیدوار ایک ہی جماعت کے آجائیں تو اسکا فائدہ تیسرا فریق اٹھاتا اور وہی ہوا یہاں سے پاکستان تحریک انصاف کے غلام سرور خان الیکشن میں کامیاب ہوئے اور چوہدری نثار علی خان اس طرح نویں دفعہ لگاتار اسمبلی میں نہیں جاسکے مگر وہ ایک صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہوئے جس کا حلف انھوں نے 2021 میں تین سال بعد اٹھایا اب آنے والے انتخابات میں چوہدری نثار علی خان آزاد حیثیت میں الیکشن لڑتے یا کسی پارٹی ٹکٹ پر یہ تو وقت ہی بتائے گا چوہدری نثار علی خان موبائل فون بہت کم استعمال کرتے ہیں انکا فون نمبر بہت کم لوگوں کے پاس ہے یہاں تک کے اراکین اسمبلی کے پاس بھی انکا نمبر نہیں ہے وہ آج کے دور میں بھی اپنے ووٹرز کے خط کا جواب دیتے اور انکے خطوط پڑھتے ہیں اور ان پر احکامات بھی جاری کرتے ہیں اخبار پڑھنا انکا بہترین مشغلہ ہے جسکو وہ کبھی نہیں بھولتے چوہدری نثار علی خان ہر کسی کو دستیاب بھی نہیں ہوتے جب وہ وفاقی وزیر کے عہدے پر رہے تب بھی بہت کم لوگوں کی ان تک رسائی ہوتی تھی انکی اہلیہ سکول ٹیچر بھی رہی ہیں انکا ایک بیٹا جبکہ 3 بیٹیاں ہیں چوہدری نثار علی خان کا سیاسی مستقبل انکے اکلوتے بیٹے چوہدری تیمور علی خان سے وابستہ ہے اسکے علاوہ ذرائع کے مطابق انکی ایک بیٹی نتاشہ نثار علی خان بھی مستقبل میں سیاسی میدان میں آسکتی ہیں