
ہماری موجودہ زندگی کے پس منظر میں صرف غلامی کی ایک صدی ہی نہیں سماجی اخلاقی معاشی اور تعلیمی انحطاط کی کی بھی کئی صدیاں شامل ہیں جب پورپ اپنے لوگوں کو تعلیم یافتہ بنانے کے لیے اسکول کالجز اور یونیورسٹیاں بنانے میں مصروف تھا تو ہمارے مسلم حکمران ,تاج محل ,بارہ دریاں ,قلعے اور باغات بنانے میں مصروف تھے اور پھر ہمیں ماضی کے اس زبردست نقصان کی تلافی کے لیے جو مہلت ملی وہ یقیناََ بہت مختصر تھی لیکن اس معقول عذر کے باوجود ہم اپنی غیرذمہ داریوں کا کوئی جواز پیش نہیں کرسکتے عذر صرف اسی صورت قابل سماعت تھا جب ہم نے اپنے فرائض کو پوری طرح ادا کیا ہوتا اصلاح حال کے لیے ہر وہ کوشش کی ہوتی جو ممکن تھی عوام کو تعلیم اور صحت سمیت تمام بنیادی سہولیات فراہم کرنا ریاست کی اولین ترجیح ہوتی ہے جبکہ دیگر امور اس کے بعد آتے ہیں۔لیکن تحریک پاکستان میں شامل رہنماؤں کے بعد جب ملک کی بھاگ ڈور اسٹیبلشمنٹ اور اس کی نرسری میں پروان چڑھنے والے سیاست دانوں کے ہاتھ آئی تو چور چوکیدار کا فرق بھی مٹ گیا لوٹ مار اور ڈاکہ زنی نے عوامی حقوق کو پش پشت ڈال دیا ہم سے آزاد ہونے والا بنگلہ دیش آج ہم سے ہر شعبے میں کہیں آگے ہے ۔آزاد پاکستان اسلامی جمہوریہ پاکستان یہ جملے کس قدر آسانی سے بولے جاتے ہیں لیکن ان کی حقیقت کیا ہے کیا قوم کو آزادی میسر ہے کیا یہاں اسلام اور جمہوریت موجود ہے ؟ نہیں ہے اور نہ کبھی ہوسکے گی کیونکہ اسلام اور جمہوریت دونوں کا نفاذ ان طاقتوں کا کبھی منشا رہا ہی نہیں جو آزادی کے ثمرات سے سمیٹے ہوئے ہیں ۔دور حاضر میں مہنگائی عوام کے لیے ایک آزمائش بن چکی ہے روز مرہ کے معاملات وحالات سے مقابلہ زندگی کو مشکل تر بنا رہا ہے مہنگائی کے وبال اور بے روز گاری کے عفریت سے پاکستانی قوم کی جان چھوٹتی دیکھائی نہیں پڑتی اس وقت ملک بے سروسامانی کی کیفیت سے دوچار ہے ۔انسانی ذہن کی نیرنگیاں تو ہرپل ایسے نظارے پیش کرتی ہیں کہ غور کرنے والے دنگ رہ جاتے ہیں۔تحلیل نفسی آشکار کرتی ہے کہ انسان کو بعض اوقات خود بھی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ جو کررہا ہے اس کا مقصد کیا ہے خواہشات کے زیر اثر اُس کا ذہن جو تاویلیں گھڑتا ہے وہی اُس کے نزدیک حقیقت شمار ہوتے ہیں اس وقت ہر جانب یہی کچھ ہورہا فیصلے خواہشات پر ہورہے ہیں ردعمل خواہشات پر آرہا ہے اس وقت ملک کئی بحرانوں کی زد میں ہے سیاست دانوں کی اقتدار کے لیے رسی کشی کے علاوہ عدلیہ میں گروہ بندی اور اور منصفوں پر سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی کے تاثر نے ایک ہیجان برپا کررکھا ہے کوئی پیچھے ہٹنے پر آمادہ نہیں اس ساری صورتحال میں وہ سب سبز کتاب تماشہ بنی ہوئی ہے جس کے نام پر سب کھیل کھیل رہے ہیں اس وقت سب کا نشانہ آئین اور عوام ہیں ۔سب اپنے اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں اگر کوئی یہ سمجھے کہ کوئی بھی گروہ آئین کی بالا دستی کے لیے کھڑا ہے تو یہ اس صدی کا سب سے بڑا جوک ہوگا ۔بالادست طبقات کے لیے نہ آئین مقدس ہے نہ عوام کی خیرخواہی مقصود ہے یہ ان طبقات کے ذاتی مفادات کی جنگ کی ہے جس کا ایدھن اس ملک کاغریب طبقہ بن رہا ہے اندیشے اور تفکرات کے بادل گہرے ہورہے ہیں غم اذیت اور مایوسیوں کے چنگل میں گرفتار عوام ہر گذرتے روز مزید مشکلات کا شکار ہورہے ہیں گہری اور ہولناک رات عوام کی زندگی کے حسن وجمال کو راکھ کے کفن میں لپیٹ چھوڑا ہے ۔ناانصافی کہیں بھی ہو دلوں میں اکثر غم وغصے کو جنم دیتی ہے اور اگر اُس کی بروقت تلافی نہ کی جائے تو یہی جذبات انتقام میں بدل جاتے ہیں اور دکھ دھیرے دھیرے چنگاریوں میں ڈھلنے لگتا ہے اور پھر یہی چنگاریاں بھڑکتے شعلوں میں بدل جایا کرتی ہیں.اور شاید یہ سب ہونے کے بہت قریب ہے ۔