چلیں آئیں باتیں کرتے ہیں

اس کائنات میں دوقسم کے انسان بستے ہیں۔ایک انسان جوکسی کے لئے اگرذرہ برابربھی کوئی کام کرے تواس کی قیمت وصول کرکے ہی رہتاہے۔اوردوسراانسان وہ انسان ہے کہ جوکسی دوسرے کے لئے جوکچھ بھی کرسکتاہے،کرتاہے لیکن کرنے کے بعداسے بھول بھی جاتاہے۔یہ وہ لوگ ہوتے ہیں کہ جنہیں ان کے کام کامعاوضہ ملے یانہ ملے،ہرحال میں خوش رہتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے کام کامعاوضہ دل کے سکون کی حالت میں لے رہے ہوتے ہیں۔دنیاکے پجاری یہ سمجھتے ہیں کہ وہ لوگ بہت ہوشیاریاعقلمندہوتے ہیں جودولت اورلالچ کے ساتھ زندگی گزاررہے ہوتے ہیں۔حالانکہ یہ دوسری قسم کے لوگ بہت عظیم اورقابل قدرلوگ ہیں جوخودکوکسی نہ کسی مقصدمیں لگاکراللہ کوراضی کرکے اپنا معاوضہ دلی سکون کی صورت میں لے رہے ہوتے ہیں۔اورجوایک کروڑپتی انسان کے مقابلے میں کئی گنازیادہ پرسکون اورصحت مندہواکرتے ہیں۔یادرہے کہ پہلی قسم کے لوگ بھی انسان ہیں۔مگردونوں میں اتنازیادہ فرق ہے کہ ظاہری صورت کے سواباقی کوئی چیزدونوں میں مشترک نہیں۔میں ان دونوں کے حوالے سے یہ کہوں گاکہ پہلی قسم کے لوگ صرف اپنی دکان چلاتے ہیں۔جبکہ دوسری قسم کے لوگ تاریخ بناتے ہیں۔قسم ہے اس پیداکرنے والے رب کی کہ یہی دوسری قسم کے لوگ انسانیت کااصل سرمایہ اورحسن ہیں۔یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جواپنے حقوق بھول کراپنی ذمہ داریوں کویادرکھتے ہوئے اس دھرتی کوامن کاگہوارہ بناکراپنے پیچھے اپنے جانشین چھوڑکراس دنیاسے رخصت ہوکرجنت کی زینت بن جاتے ہیں جہاں ان کے ساتھ بسنے والے سب لوگ یہی دوسری قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔وہاں پہلی قسم کے لوگ ہمیں کہیں نہیں نظرآتے ہیں۔اوروہ اس لئے کہ وہ دنیامیں اول پوزیشن حاصل کرتے کرتے آخرت میں آخری نمبرپرآکرہارجایاکرتے ہیں۔اوران کاٹھکانہ اس دنیاوی گھرسے بالکل الگ تھلگ ہوتاہے کہ جس میں کام کرنے کے بعدقیمت نہیں ملتی ہے۔دراصل وہ اپنے کام کامعاوضہ اورقیمت دنیامیں وصول کرچکے ہوتے ہیں۔لہٰذاآخرت میں ان کے اعمال کاصلہ ہی ان کامقدربنتاہے۔انسان اس کائنات میں ایک پیغام رساں کی حیثیت رکھتاہے۔ہوش سنبھالتے ہی وہ اپنے سے کم علم لوگوں کوپیغام دیناشروع کردیتاہے۔یہ پیغام یاتو”شر“کاہوسکتاہے اوریا”خیر“کا۔بس اس پیغام رساں کی ساری زندگی اس امتحان میں گزرتی ہے کہ اس نے دنیامیں اللہ کی مخلوق کو کیا کیا پیغام دئیے ہیں۔کیااس نے اللہ اوراس کے رسول ﷺکے بتائے ہوئے احکامات کے مطابق کام کیاہے یاشیطان کے پیغامات ہی اس کی زبان اورافعال کاحصہ بنے۔اس مثال میں پہلی اوردوسری دونوں اقسام کے لوگوں کوشامل کردیاگیاہے۔مرتے دم تک یہ دونوں یاتواپنی دکان چمکاتے رہتے ہیں اوریاتاریخ بناتے رہتے ہیں۔بڑے پروقارہوتے ہیں وہ لوگ کہ جن کی زندگی کاایک ایک لمحہ دنیاکی اصلاح اورمعاشرے کی فلاح کیلئے صرف ہوتاہے۔بڑے پیارے ہوتے ہیں وہ لوگ کہ جن کی زندگی کا اولین مقصدانسانیت کے دکھ درد میں ان کاساتھی بننا ہوتا ہے۔ انسان کمزور بھی بہت ہے اور طاقتور بھی انتہاکاہے۔کمزوروہ ہے جواپنے
نفس کے ہاتھوں مجبورہے۔اورطاقتوروہ ہے کہ جن کے سامنے نفس اورشیطان دونوں شکست سے دوچارہوجاتے ہیں۔اقتدار اعلیٰ کا سرچشمہ صرف اللہ پاک کی ذات ہے۔مگروہ ذات دنیامیں کسی سلطنت یاکسی ملک کااقتدارانہی دو اقسام کے انسانوں میں سے کسی کے سپردکرکے ان کاامتحان لیتی ہے۔خدائے بزرگ وبرترسے دعا ہے کہ وہ ہمارے حاکموں کو خوف خدا دل میں لئے نظام کو پائیدار کرنے والا بنا دے۔ آج ملک پاکستان کے حالات وواقعات کابغورجائزہ لیاجائے تومعلوم ہوتاہے کہ آج یہ دھرتی زورزورسے نوحہ کناں ہے کہ اے انسان!اس دھرتی پرخدابننے کی کوشش مت کرکہ یہ دھرتی سکون کی متلاشی ہے۔آج یہ سرزمین آہ وپکارکی صورت میں فریادی ہے کہ اے حکمرانواوران کے یارو!تم اپنی اپنی باری کے چکرمیں یہ بھی بھول گئے کہ تمہاری تخلیق کامقصدکیاتھا۔جس دھرتی کاحکمران یاکوئی بھی بااختیاربادشاہ یااس کاچمچہ حج وعمرہ کی ادائیگی کی ویڈیوبنواکراپنے ملک کے غریبوں پراپنارعب طاری کرکے خوشی محسوس کرے وہ طواف کے چکرلگاکرورزش توکررہاہوتاہے لیکن حج وعمرہ ہرگزنہیں۔گزشتہ تیس برس سے زیادہ اس قوم کومصائب کی چکی میں پستے ہوئے ہوگئے ہیں مگرسکون نام کی کوئی چیزاس غریب عوام کے حصہ میں نہ آسکی۔اگرہم بات کریں ووٹ اورالیکشن کی توبجائے اس کے کہ کوئی بڑاظالم خدانخواستہ اس قوم کامالک بن جائے،عوام کو مجبوراً کسی کم ظالم کو چننا پڑتا ہے۔ اپنی بات کوایک مثال کے ذریعے مکمل کرنے کی جسارت کرتاہوں۔وہ یہ کہ کبھی ایسا بھی ہوتاہے کہ ہم کسی فروٹ مرچنٹ کے پاس جائیں اوراس سے بہترین فروٹ کی فرمائش کریں اوراس کاجواب یہ ہوکہ جناب!یہ فروٹ اچھانہیں ہے،یہ آپ کے سامنے پڑا ہوا ہے، آپ ان میں سے چن لیں۔ہمارے اس ملک میں سیاسی جماعتوں کابھی یہی حال ہے۔ہمیں مجبوراکم کرپٹ لوگوں کواپناحکمران مانناپڑتاہے بجائے اس کے کہ ہماراکوئی حکمران ہی نہ ہو اور جنگل کا قانون ہی ہمارا مقدر ٹھہرے۔ لیکن ہم بھی جائیں تو جائیں کہاں! اس ملک کاکم بدعنوان وہ ہوتاہے جوبیرون ملک کی دس سے زائدکمپنیوں کامالک ہوتا ہے۔ ہمارا کم کرپٹ وزیر یا حکمران وہ ہوتا ہے جو اپنی زندگی میں کم از کم دس مرتبہ قرضے لے کرمعاف کروا چکا ہوتا ہے۔ ہمارا کم بدعنوان حکمران یا وزیر وہ ہوتا ہے جو اپنی نسل یا گھر کے افراد میں سے کم ازکم دس افراد کو حکومتی کرسیاں عنایت کر چکا ہوتا ہے۔ اور تو اور ہمارا سب سے کم کرپٹ حکمران یاوزیروہ ہوتاہے جومتعدد مقدمات کے باوجوداپنے علاقے کے جرگے کاسربراہ ہوتاہے۔چاہے وہ قاتل،فاسق اورماضی کامشہورزمانہ قیدی ہی کیوں نہ ہو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں