چلہ گاہیں اور ہماری روایات /عبدالجبار چوہدری

خطہ پو ٹھو ہار میں بہت سی کھلی جگہوں اور گھروں میں بزرگان دین کی چلہ گاہیں ہیں یعنی عبادت گاہیں جہاں اللہ کے خاص بندے مخصوص وظائف کرتے تھے۔ان جگہوں پر بیٹھ کر اور محلوق کی فلاح کے لئے ٹہرے رہنے کی وجہ سے خاص نام دیا جاتا ہے جیسے ،،بیٹھک ،، عرف عام

میں یادگار کے عنوان سے بھی یاد کیا جاتا ہے ان یادگاروں پر آج بھی لوگ پھول چڑھاتے ہیں دئیے جلاتے ہیں اور دعا کے لئے ہاتھ بھی بلند کئے جاتے ہیں بعض یادگاریں گھروں کی چاردیواروں کے اندر آچکی ہیں مگر پھر بھی ان گھروں کے مکین ان جگہوں کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔ ان میں بہت سی یاد گار یں جنگلوں، آبادی سے دور ہیں اس کے باوجود بہت سے عقیدت مند ان کو آباد کئے ہوئے ہیں۔ ان یادگاروں کے نزدیک بھی تعمیر کئے ہوئے ہیں

۔پوٹھوار کے گھنے جنگلات جہاں ہر قسم کے جنگلی جانور پائے جاتے ہیں ان جنگلوں میں اللہ کے خاص بندوں نے تنہائی اختیار کر کے اللہ کے ذکر صدائیں بلند کیں وہ جنگلات اب محروم ہوتے جارہے ہیں اور وہاں بیٹھنے کی جگہوں کو محفوظ بنا لیا گیا ہے۔ بعض لو گوں نے سالا نہ پروگرام بھی تر تیب دے رکھے ہیں۔اسلام آباد جہاں پر بسا یا گیایہا ں کئی سال قبل امام بری کے نام سے بزرگ جانے جاتے ہیں انہوں نے آکر بسیرا کیا آپ کی چلہ گاہیں آج بھی موجود ہیں اتنی مشکل جگہوں پر ذات باری تعالیٰ کے ذکر کے لئے قیام اور ان نشانات ومقامات کا آج تک قائم و دائم رہنا بے

شک ایک معجزہ ہے۔ سیر و فی الارض کے عنوان کے تحت بزرگان دین نے جنگلوں کو مسکن بنایا،پہاڑوں کو معجزہ کیا اور ایسی جگہوں پر گئے جہاں انسانی عقل اور طاقت عاجز آجاتی ہے آج ایک عام انسان گاڑی، دولت، طاقت، جہاز، رکھتے ہوئے ایک شہر سے دوسرے شہر یا ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں ہجرت کی ستطاعت نہیں رکھتا اور نہ کو شش کرتا ہے تو ان خاص بندوں کو کون سی چیز مجبور کرتی تھی

کہ وہ گاؤں کے گاؤں اور جنگل کے جنگل اور آبادیوں سے دور جگہوں میں قیام کرتے اور ان کو مسکن بناتے پوٹھوہار میں جہاں بزگان دین کے مزارات مربع خلاص و عام ہیں وہیں ان کی قیام گاہیں بھی زیارتِ خلائق ہیں۔بچپن میں ہم ہر جمعرات کے دن سر سوں کا تیل لئے ان مقامات پر روٹی کی بٹی تر کر کے مٹی کے دئیے جلانے جاتے تھے اور یہ عمل ان جگہوں پر بھی کیا جاتا ہے

جہاں مزارات یا یادگاریں نہیں ہوتی تو مسجد کی بیرونی اطراف،،آلے،،چھو ڑے ہوئے ہوتے ہیں وہاں لوگ دئیے جلا کر چراغاں کرتے نیم ترقی یافتہ دور میں ہم نے روایات کو دفن کرنا شروع کر رکھا ہے اس طرح یہ روایت بھی دم توڑ تی نظر آرہی ہے اب مخصوص وابستہ لوگ اس ڈیوٹی کو سنبھالے ہوئے ہیں والدین بچوں کو تر غیب نہیں دے رہے ایک وقت وہ بھی تھا کے معلومات حاصل کرنے اور نئی چیزوں کے بارے میں جاننے کے لئے ہر رات کو بڑے جوان گاؤں میں ایک جگہ مل کر بیٹھتے تھے

وہاں کوئی بات کی جاتی توسب غور سے سنتے تھے۔ بجلی جب نہیں تھی روشنی کا معقول بندوبست نہ تھا اور ہمارے پاس کتاب میں بھی نہیں تھیں اور انہیں پڑھنے والے لوگ بھی نہیں تھے اس وقت ہم روزانہ ایک دوسرے سے ملتے تھے گھروں میں مہمانوں کو ٹہراتے تھے کئی روز تک عزیز رشتہ دار اکی دوسرے کے ہاں رہے تھے بعض بچے تو جوان ہو کر اپنے ماں باپ کے پاس لوٹ کر آتے تھے

اس وقت بزرگان دین بھی اللہ کے دین کا پیغام لئے قریہ قریہ جاتے تھے اور جس گھر جگہ میں ٹہرتے تھے قیام کئی دنوں کا ہوتا تھا۔ سواریوں کوتازہ دم رکھنے کے لئے بھی یہ ضروری ہوتا تھا وہ قیام گاہیں آج بھی بہت سی جگہوں پر قائم دائم ہیں ان کے استعمال کی چیزیں بھی لوگوں نے سنبھال رکھی ہیں۔بارات کے دن جب دولہا تیار ہو جاتا ہے تو وہ ان تمام یادگاروں پر بصر عجزوانکسار حاضری دیتا ہے اور اس کو نیک شگون کے طور پر لیا جاتا ہے شادی کے موقع پر دن مقرر کرتے وقت کچھ نیاز ان یادگاروں پر چڑھائی جاتی ہے۔ان روایات پر تنقید کرنے والے بھی ہیں اور ان کاموں کے انجام دینے والوں کو آج بھی جاہل ان پڑھ اور نجانے کن کن خطابات سے نوازا جاتا ہے۔ ان یادگاروں کے جلو میں دیگ رکھ کر چاول بانٹنا۔ یہاں کلام الہیٰ کا کچھ حصہ تلاوت کرنا اور خاموشی سے بیٹھے رہنا تو قابلِ اعتراض نہیں اگر حدود و قیود متعین کرنا شروع کر دیں

تو پھر انفاق فی سبیل للہ، مسافروں کی خدمت، بھوکوں کو کھانا کھلانا اور قرض داروں کے قرضوں کے بوجھ کو اپنے ذمے لینے جیسے اعمال بھی ہیں کیا ہم اپنے آپ سے فرصت پاکر ان اعمال کو انجام دے رہے ہیں۔ یقیناًمعتر فین کی اکثریت کا جواب نفی میں ہوگا۔ سالانہ زکواۃکی ادائیگی، عشر کا نکالنا، قربانی کرنا، صابِ استطاعت کا حج اور عمرہ پر جانا یہ تو فرائض ہیں ان کو ادا کرنا تو ہر حال میں ضروری ہے پھر ان کی طرف بلانے یا تبلیغ کا فریضہ بھی تو فرض ہو ہم ان فرائض کو مسکینوں غریبوں یتیموں کی رکھوالی جیسے کاموں کا نعماا لبدل قرار دے سکتے۔ حکومت کے محکمہ اوقاف نے بہت سی چلہ گاہوں،

یادگاروں کا انتظام و الغرام سنبھال رکھا ہے اور وہاں آنے والے زائرین کی سہولیات کے لئے بھی بندوبست کر رکھے ہیں اور خاطر خواہ آمدنی کا ذریعہ بھی ہیں۔ یہ سلسلہ ہمیشہ چلتا رہے گا اور قیامت تک جاری و ساری رہے گا۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے۔
مسجد تو بنادی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی تھا برسوں میں نمازی بن نہ سکا{jcomments on}

اپنا تبصرہ بھیجیں