پی ڈی ایم امیدوار راجہ صغیر پی ٹی آئی امیددوار کرنل شبیر اعوان
تحصیل کلرسیداں اور کہوٹہ پرمشتمل حلقہ پی پی 7میں ضمنی انتخابات کے حوالے سے اتوار کے دن حلقے کی عوام اپنا ووٹ کاسٹ کرے گی حلقہ پی پی 7 راولپنڈی کے اہم علاقوں کہوٹہ،کلرسیداں، مٹور،نرڑ، بیور، نارہ،چوآخالصہ اور دوبیرن کلاں پرمشتمل ہے ان ضمنی انتخابات میں اس حلقے سے تحریک انصاف کے امیدوار کرنل رشبیراعوان اورمسلم لیگ ن کے نامزد امیدوار راجہ صغیرکے مابین کانٹے دار مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے جبکہ عوامی رائے کے مطابق یہ بات خاصی دلچسب ہے کہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے امیدواروں کو اپنے اپنے ہوم اسٹیشن پر ایک دوسرے سے سخت مزاحمت کا سامنا ہے اس صوبائی حلقے کی کل آبادی372581 نفوس پر مشتمل ہے اور مجموعی ووٹرز کی تعداد 3لاکھ 35ہزار295ہے جن میں مرد ووٹرز کی تعداد 1لاکھ71ہزار464ہے جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد1لاکھ63ہزار831ہے اس حلقے میں کلرسیداں کی 6یونین کونسلز شامل ہیں جبکہ یوسی بشندوٹ کو بھی اب دوبارہ اسی صوبائی حلقے میں ضم کردیا گیا ہے تاہم ان ضمنی انتخابات میں یونین کونسل بشندوٹ کے ووٹرز اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کرسکیں گے پی پی7 کے ان ضمنی انتخابات کیلیے 266پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے ہیں جبکہ پولنگ بوتھ کی تعداد787ہے مسلم لیگ ن کے امیدوار راجہ صغیر کیلیے اس الیکشن میں مخالف سمت سے جو ممکنہ مزاحمت نظر آرہی ہے اسکے سیاسی پس منظر کے حوالے سے چند نکات کا احاطہ کرنا ضروری ہے سب سے اہم نقطہ یہ ہے کہ ضمنی الیکشن میں محمد علی کی بجائے راجہ صغیر کو ٹکٹ ملنے پرراجہ ظفرالحق گروپ خاصہ ناراض ہے اگر اس گروپ نے پولنگ کے دن راجہ صغیر کی حمایت سے مکمل طور پر اپنا ہاتھ کھینچ لیا تو پھر راجہ صغیر کیلیے مشکلات تو ہونگی جبکہ دوسری جانب آزاد امیدوار راجہ نزاکت حسین اور جماعت اسلامی کے تنویر احمد بھی میدان میں ہیں مگر آزاد امیدوار وسیم احمد جنکا تعلق تحصیل کہوٹہ سے ہے وہ اگر اس حلقے سے آٹھ,دس ہزار کے لگ بھگ ووٹ لینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو پھر بھی راجہ صغیر کے ووٹ میں کمی کے امکانات موجودہیں تیسری وجہ طارق مرتضی ستی ہیں جو اپنے وسیع حلقہ احباب اور معقول ووٹ بینک کے ساتھ تحریک انصاف کے امیدوار کیساتھ کھڑے ہیں اور انکے حمایتی ووٹرز کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے و ہ بھی کرنل شبیراعوان کی مکمل سپورٹ کررہے ہیں جبکہ حافظ منصور جو کہ تحریک لبیک کے امیدوار ہیں اندازہ یہی ہے کہ وہ خاصی تعداد میں مذہبی حلقوں کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہونگے جبکہ انہوں نے 2018 کے الیکشن میں اسی حلقے سے 15ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے تھے تاہم گزشتہ برس تحریک لبیک پاکستان کی نئی رکنیت سازی سے نوجوانوں کی بڑی تعداد نے اس مذہبی جماعت میں شمولیت اختیار کی تھی اور ایسا لگتا ہے کہ آنے والے ضمنی انتخابات میں تحریک لبیک کے ووٹرز کی تعداد پہلے کی نسبت کہیں زیادہ ہوگی اس حوالے سے اپنے امیدوار کی حمایت میں 8جولائی کو تحریک لبیک پاکستان کے امیر سعدحسین رضوی نے کلرسیداں کا دورہ کیا تھا اور براستہ چوکپنڈوڑی کلرسیداں آمد پر انکے عقیدت مندوں نے دنیاوی جھمیلوں سے بیگانہ ہوکر دیوانہ وار استقبال کرتے ہوئے ان پرپھولوں کی پتیاں نچھاور کی تھیں جبکہ اسی دن سابق
وزیراعظم وچیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے بھی کہوٹہ کے علاقے چھنی اعوان میں عوامی اجتماع سے خطاب کیا تھا جبکہ جمعرات کی شام مریم نواز نے بھی راجہ صغیر کی حمایت میں کلرسیداں میں مسلم لیگ کے کارکنان سے خطاب کیا تھا تاہم اس حلقے کی سیاست میں اس وقت سنسنی خیز موڑ آیاجب سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) ظہیر الاسلام نے اپنی رہائشگاہ پر پی ٹی آئی امیدوار کرنل شبیر اعوان کے حق میں منعقدہ ایک جلسے کی میزبانی کی تھی تحریک انصاف کے حامی ملک کے اعلی ترین حساس ادارے کے سابق سربراہ کی سیاسی سپورٹ کو تحریک انصاف کے امیدوارکی کامیابی کیلیے اہم پیش رفت قرار دے رہے ہیں یاد رہے سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ریٹائرڑ ظہیرالاسلام نے کچھ دن قبل حلقہ پی پی7 راولپنڈی میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار کرنل شبیر اعوان جوکہ PTI کے امیدوار ہیں ان کی حمایت میں کہوٹہ کے گاؤں مٹور میں اپنی رہائش گاہ پرجلسے کا اہتمام کیا تھا جسکے بعد وہ میڈیا میں خبروں کی زینت بن گے تھے حلقہ پی پی7 کی روزبروز تیزی سے بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال سے بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ راجہ صغیر کے مقابلے میں کرنل شبیر اعوان نے پی پی7کی سیاسی پچ پر اپنی پوزیشن پہلے کی نسبت خاصی مستحکم کرلی ہے تاہم پی پی7میں ماضی میں منعقدہ انتخابات کے نتائج پرنظر دوڑائیں تو مسلم لیگ ن اس حلقے میں طویل عرصے سے اپنے نظریاتی ووٹ بینک کیساتھ خاصی مضبوط پوزیشن میں چلی آرہی ہے بالخصوص راجہ صغیر ذاتی طور پربھی اپنے انفرادی تعلقات کی بنا پرحلقے کی سیاست اور عوام میں اپنا مقام رکھتے ہیں جبکہ گزشتہ عام انتخابات میں انہوں نے اپنے مدمقابل پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے امیدواروں کو آزادحیثیت سے نہ صرف شکست سے دوچار کردیا تھا بلکہ وہ 2018 کے عام انتخابات میں 44286 ووٹ لینے میں بھی کامیاب ہوگئے تھے جبکہ مسلم لیگ ن کے راجہ محمد علی 42382ووٹ لے کر دوسرے جبکہ تحریک انصاف کے امیدوار مرتضی ستی40332ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر تھے اور ایسے حالات میں جبکہ ملک کے بڑے صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت ہے اور حکومت پنجاب کی انتظامی مشینری کی زیرنگرانی یہ ضمنی انتخابات ہورہے ہیں تو ایسے میں وہ اپنے امیدوار کی جیت کو یقینی بنانے کیلیے ہرطرح کی کوشش کرے گی اور اندازہ یہی ہے کہ وہ اپنے مخالف حریف سے یہ ضمنی الیکشن جیتنے کی پوزیشن میں ہیں تاہم اس بات میں بھی خاصہ دم ہے کہ اگر تحریک انصاف کے امیدواروں کو ان ضمنی الیکشن میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تو عمران خان دھاندلی کا الزام لگا کر نیا پنڈوڑہ بکس کھول دینگے اور عین ممکن ہے کہ وہ ضبط کی زنجیروں کو توڑ کر الیکشن کمیشن اور پنجاب حکومت کے خلاف ملک گیر عوامی احتجاج کی کال دے دیں کیونکہ اس سے قبل پارٹی سربراہ عمران خان ان ضمنی انتخابات میں دھاندلی اور نتائج کو تبدیل کرنے کے حوالے سے پنجاب حکومت کو باز رہنے کی بارہا دھمکی دے چکے ہیں اور انہوں نے ووٹرز لسٹوں میں تبدیلی اورحکمران جماعتوں کی حمایت سے17 جولائی کے انتخابات میں حصہ لینے والے پی ٹی آئی کے منحرف امیدواروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے ریاستی مشینری کے استعمال کا بھی الزام لگایا ہے اگر ضمنی انتخابات کے دوران مبینہ دھاندلی کی شکایات منظرعام پر آگئی تو پھر پی ٹی آئی کی قیادت کیجانب سے نتائج تسلیم نہ کرنے کی بنا پرایک نیا تنازعہ جنم لے سکتا ہے جس سے ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہونے کے خدشات اپنی جگہ بدستور موجود ہیں۔