پی ٹی آئی فارن فنڈنگ سکروٹنی کمیٹی رپورٹ

فارن فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کی قائم کردہ سکروٹنی نے تحریک انصاف کی آڈٹ فوم پر سوالات اٹھائے ہیں اردو نیوز کے مطابق دستیاب سکروٹنی کی رپورٹ میں کمیٹی نے قرار دیا کہ پی ٹی آئی کی آڈٹ رپورٹ اکاؤنٹنگ کے معیار پر پورا نہیں اترتی پارٹی کی جانب سے الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے ڈیکلریشن میں بینک اکاؤنٹس ظاہر نہیں کئے گئے پارٹی نے الیکشن کمیشن کے سامنے بارہ بینک اکاؤنٹس ظاہر کئے جبکہ ترپین اکاؤنٹس کو چھپائے رکھا رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف کے اکتیس کروڑ روپے سے زیادہ کے عطیات الیکشن کمیشن میں ظاہر نہیں کئے گئے الیکشن کمیشن میں جمع کرائی گئی تفصیلات کے مطابق 2008سے2013تک پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کے سامنے ایک ارب تینتیس کروڑ روپے ظاہر کئے جبکہ سٹیٹ بینک کی تفصیلات کے مطابق اس دوران پی ٹی آئی کو ایک ارب چونسٹھ کروڑ روپے کے عطیات وصول ہوئے سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی نے پارٹی فنڈز سے متعلق الیکشن کمیشن کو غلط معلومات فراہم کیں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2009-10میں دو کروڑ پانچ لاکھ نواسی ہزار روپے ظاہر نہیں کیا گیا2010-11کے دوران چھ کروڑ گیارہ لاکھ پچاسی ہزار روپے جبکہ 2011-12میں آٹھ کروڑاٹھاون لاکھ اور 2012-13میں چودہ کروڑپچاس لاکھ اٹھانوے ہزار روپے کو ظاہر نہیں کیا گیا2014میں پاکستان تحریک انصاف کے منحرف رکن اکبر ایس بابر نے پارٹی فنڈز میں بے ضابطگیوں کے خلاف الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کی جس میں انہوں نے مبینہ طور پر دو آف شور کمپنیوں کے ذریعے لاکھوں ڈالر ہنڈی سے پارٹی کے بینک اکاؤنٹس میں منتقل کئے جانے کا الزام عائد کیا اور کہا کہ تحریک انصاف نے بیرون ملک سے وہ بینک اکاؤنٹس الیکشن کمیشن سے خفیہ رکھے جن میں پارٹی فنڈز جمع ہوتے تھے بعد ازاں پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی بھی اس کیس میں فریق بن گئیں اکبر ایس بابر نے پارٹی فنڈز میں بے ضابطگیوں اور غیر قانونی بیرونی فنڈنگ کے حوالے سے درخواست دی تو تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کے سیاسی جماعتوں کے فنڈز کی چھان بین کرنے کے دائرہ اختیار کو چیلنج کیا تقریباََایک سال کے بعد الیکشن کمیشن نے آٹھ اکتوبر 2015کوتحریک انصاف کے اعتراضات مسترد کرتے ہوئے فیصلہ سنایا کہ الیکشن کمیشن پارٹی فنڈز کی چھان بین کرنے کا اختیار رکھتا ہے ایک ماہ کے بعد چھبیس نومبر 2015کو تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کا دائرہ اختیار اور اکبر ایس بابر کے بطور مدعی بننے پر اعتراضات کی درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرا دی ہائی کورٹ میں یہ معاملہ ڈیڑھ سال جاری رہا اور سترہ فروری 2017کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے تحریک انصاف کے الیکشن کمیشن کو سماعت جاری رکھنے کی ہدایت کی الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کے بینک اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کیلئے ڈائریکٹر جنرل لاؤنگ‘ایک ایڈیشنل سیکرٹری اور الیکشن کمیشن کے آڈیٹر جنرل کے افسران پر مشتمل ایک خصوصی کمیٹی قائم کی تحریک انصاف نے اسلام آبادہائی کورٹ میں اس کمیٹی کے خلاف درخواست دائر کر دی تاہم عدالت نے اس درخواست کو مسترد کر دیاجولائی 2018میں الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کی جانب سے تفصیلات فراہم نہ کرنے پرسٹیٹ بینک آف پاکستان سے 2009سے 2013تک تحریک انصاف کے بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات طلب کیں سٹیٹ بینک آف پاکستان نے الیکشن کمیشن کو تحریک انصاف کے تئیس بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات فراہم کی گئی تھیں دوسری جانب تحریک انصاف نے پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی پر فارن فنڈنگ کا الزام عائد کرتے ہوئے الیکشن
کمیشن میں درخواست دائر کی تھی یاد رہے کہ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کی جانب سے الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاج کے اعلان کے بعد الیکشن کمیشن نے اٹھارہ جنوری 2022کو پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی کو غیر ملکی فنڈنگ کیس کے حوالے سے طلب کر رکھا ہے الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ سکروٹنی کمیٹی کی طرف سے تحریک انصاف کے بینک اکاؤنٹس اور غیر ملکی فنڈنگ کے بارے میں رپورٹ پیش کی گئی ہے الیکشن کمیشن اس پر جوڈیشل کاروائی شروع کرے گا انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن ایکٹ 2017کاسیکشن204اس حوالے سے بڑا واضح ہے کہ کوئی بھی غیر ملکی ادارہ تنظیم یا شخصیت پاکستان میں کسی سیاسی جماعت کو فنڈ فراہم نہیں کر سکتے انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی غیر ملکی فنڈنگ کا معاملہ 2014میں سامنے آیا تھا اور الیکشن کمیشن کے حکام کی طرف سے اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانے میں تاخیر کی گئی اور خود پاکستان تحریک انصاف کے عہدیداروں نے بھی الیکشن کمیشن کی کاروائی کو رکوانے کیلئے مختلف ہائی کورٹس سے حکم امتناع بھی حاصل کئے مزید یہ کہ الیکشن کمیشن کے پاس ہائی کورٹ کے جج جتنے اختیارات ہوتے ہیں اور الیکشن کمیشن اس پر کاروائی کرنے کے بعد کروڑوں روپے کے ممنوعہ فنڈ‘ضبط کرنے کا حکم دیتا ہے تو اس سے پاکستان تحریک انصاف کی بطور سیاسی جماعت ساکھ کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے ایسی صورت میں اس جماعت کی رجسٹریشن بھی منسوخ تصور ہو گی اور اس جماعت کے انتخابی نشان پر جیت کر آنے والے ارکان پارلیمنٹ کی رکنیت پر بھی سوالیہ نشان لگ جائے گا انہوں نے مزید کہا کہ چند وفاقی وزراء نے وزیر اعظم عمران خان کو زمینی حقائق سے آگاہ کرنے کے بجائے الیکشن کمیشن کو نشانہ بنانے پر ہی اکتفا کیا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ جیسے الیکشن کمیشن حکمران جماعت کے خلاف ایک پوزیشن لئے ہوئے ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں