پیکر شرم وحیاء حضرت عثمان اور معاشرہ

اسلام کے ابتدائی ایام میں دعوت اسلام پر لبیک کہنے والوں میں سے ایک حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا نام بھی شامل ہے  آپ کی ولادت 576ء 47 سال قبل ھجرت مکہ یا طائف میں ھوئی والد کا نام عفان بن ابی العاص اور والدہ کا نام اروی بنت كريز ہے آپ قبیلہ قریش کی شاخ بنو امیہ سے تھے قریش کا قومی علم آپ کے خاندان کے پاس تھا آپ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جگر کے دو ٹکڑے آپ کے عقد میں آئے پہلے آپ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی حضرت رقیہ سلام اللہ علیہا سے نکاح ھوا غزوہ بدر کے موقعہ پر حضرت رقیہ سلام اللہ علیہا کا وصال ہوا تو آپ اکثر غمگین رہنے لگے کہ میرا خاندان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رشتہ ختم ھو گیا ہے تو رسولِ خدا صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی دوسری بیٹی حضرت ام کلثوم سلام اللہ علیہا سے آپ کا نکاح فرما دیا اسی شرف کی بنا پر آپ کو ذوالنورین کہا جاتا ہے یعنی دو نوروں والا اسلام کے فروغ اور مسلمانوں کو مشکلات سے نجات دلانے کے لیے آپ نے پیسہ پانی کی طرح بھایا ہے ان کی اسی سخاوت کو دیکھ کر حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا حدیث مبارکہ میں ہے حضرت عبدالرحمن بن حباب فرماتے ہیں میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  جیش العسرہ(غزوہ تبوک) کی تیاری کے لیے مال پیش کرنے کی ترغیب دے رہے تھے تو حضرت عثمان غنی کھڑے ہو کر عرض گزار ہوئے یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سو 100 اونٹ مع ساز وسامان کے اپنے ذمہ اللہ کی راہ میں لیتا ھوں حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے دوبارہ ترغیب دی تو حضرت عثمان غنیؓ پھر کھڑے ہوئے اور کہا میں دو سو اونٹ اللہ کی راہ میں کجاوے اور پلان سمیت اپنے ذمہ لیتا ہوں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تیسری مرتبہ نفاق فی سبیل للہ کی ترغیب دی تو آپ پھر کھڑے ہوئے اور عرض کیا میں اللہ کی راہ میں تین سو اونٹ کجاوے اور پلان سمیت اپنے ذمہ لیتا ھوں لیتا ہوں راوی کہتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام منبر سے اتر ے اور فرمایا اس عمل کے بعد عثمان جو کچھ بھی عمل کرئے گا اس پر کوئی جواب طلب نہیں ھوگا ( ترمذی) سخاوت کے وصف کے علاؤہ بھی احادیث مبارکہ میں آپ کے بہت سارے اوصاف حمیدہ کا ذکر کیا گیا ہے لیکن ان میں ایک ایسا وصف بھی ہے جس کی اشاعت تبلیغ یا عام کرنے کی شاید اس وقت معاشرے کو بہت زیادہ ضرورت ہے اور وہ شرم وحیا ہے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے گھر میں (بستر پر) لیٹے ہوئے تھے اس عالم میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دونوں مبارک پنڈلیاں کچھ ظاہر ہو رہی تھیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دے دی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی طرح لیٹے رہے اور گفتگو فرماتے رہے پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دے دی جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی طرح لیٹے رہے اور گفتگو فرماتے رہے پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے درست کر لئے (محمد راوی کہتے ہیں کہ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ ایک دن کا واقعہ ہے )حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آ کر باتیں کرتے رہے، جب وہ چلے گئے تو حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کا فکر و اہتمام نہیں کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے تب بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے کوئی فکر و اہتمام نہیں کیا اور جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو آپ صلی اﷲ علیک وسلم اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے درست کر لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں اس شخص سے کیسے حیاء نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں (مسلم )حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں سے سب سے زیادہ حیا دار عثمان بن عفان ہے(حلیہ الاولیاء)حیاء کیا ہے فطرت سلیمہ سے ناموافق افعال پر دلی شرم اور ہچکچاہٹ حیا کہلاتی ہے یہ ایک ایسا وصف ہے جو جس انسان میں جتنا پختہ ہو وہ اتنا ہی عظیم بنتا چلا جاتا ہے انسان کی مذہبی اور معاشرتی زندگی کی تشکیل میں حیاء کا بہت اہم کردار ہے آج ہمارا معاشرہ بے حیائی اور بے شرمی کا نمونہ بن چکا ہے  عورتوں کی شرم وحیاء کے معاملات کو تو ایک طرف رکھ دیں صرف مردوں کے معاملات کو ہی سامنے رکھیں تو آپ دیکھیں گے کہ ماضی قریب میں نوجوان لڑکے اپنے بزرگوں کے سامنے ننگے سر نہیں جاتے تھے اور نہ ھی بڑوں کے سامنے بولتے تھے  ننگے سر بزگوں کے سامنے جانا بے شرمی و بے حیائی تصور کیا جاتا تھا لیکن آج بزرگ تو بڑے دور کی بات ہے رب کے حضور ( نماز میں) آج ننگے سر  بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کھڑے ھوتے ہیں اگر کوئی ٹوک دے تو فخریہ انداز میں جواب ملتا ہے کیا یہ فرض ہے یا واجب ہے سونے ہے سہاگہ نوجوان مذھبی سکالرز اپنے آپ کو ماڈریٹ ثابت کرنے کے لیے مذہبی گفتگو ننگے سر کرنا فخر محسوس کرتے ہیں اگر مذہبی لوگوں میں بھی یہ رجحان پایا جائے گا تو پھر دینی اقدار کا اللہ ہی حافظ ہے شرم وحیاء کو ھم نے گھروں سے رخصت کر دیا ہے رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے نکال دی ہے بے ڈھنگا لباس عورتوں کے ساتھ اختلاط ذو معنی جملوں کا استعمال معمول و فخر اور معمولی بات بن چکی ہے شاید ایک شخص چند سال قبل وہ الفاظ و افعال اپنی نجی مجلس میں کرنا گوارہ نہیں کرتا تھا آج سوشل میڈیا پر پوری دنیا کے سامنے کر رہا ہے اور فخر محسوس کر رھا ہے ایسے بے ھودہ بے حیا بے شرمی والے کام کرنے والے لوگ آج ھمارے معززین میں شامل ھو گے ہیں پہلے ان کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور انہیں بھنڈ کہا جاتا تھا کسی سے ایسا فعل سرزد ھو جاتا تو اسے بھنڈ کہ کر عار دلائی جاتی تھی موجودہ دور میں سیرت حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے اس شرم وحیاء والے پہلو کو اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ھمارے معاشرے کی باقی ماندہ اقدار ختم نہ ھوں

اپنا تبصرہ بھیجیں