پینڈو/تحریر ۔عبدالجبار چوہدری

سکول سے میڑک کرنے کے بعد کالج کی دہلیز پر قدم رکھا تو مختلف علاقوں سے آئے ہوئے طالب علموں سے ملنے کا موقع ملا گو کہ ہمارا کالج بھی دیہی علاقہ کے اختتام اور شہری علاقہ کے آغاز پر واقع تھا پھر بھی جب شہر کے کالجز کے طلباء سے تنظیمی معاملات کے

سلسلہ میں واسطہ پڑاتو طلباء کو دو واضع حصوں میں منقسم پایا ایک شہری طلباء اور دوسرے دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلباء ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کی نمائندہ طلبہ تنظیموں کے علاوہ جو نمایاں گروپس تھے ان میں پوٹھوہار طلبہ یونین بھی تھی جو دیہی طلبہ کی نمائندہ جماعت کہلاتی تھی۔لباس وضع قطع، رنگ ڈھنگ سے دیہی طلباء دورسے پہنچانے جاتے تھے۔ بولنے کا لہجہ،انداز سے بھی دیہی اطوار ٹپکتے تھے۔مخاصمت یا اختلاف کی صورت میں ایک بھاری بھرکم لفظ “پینڈو”بول کر ان دیہی طلباء کا مذاق اڑایا جاتا تھا۔پینڈو ہونا کو ئی عیب نہیں اگر محض دیہات میں رہنے کی وجہ سے اسے “پینڈو”یعنی دیہات میں رہنے والا کہا جائے تو یہ قابلِ مذمت نہیں بلکہ قابلِ فخر بات ہے پختہ رنگت ، کھردرے ہاتھ ،ڈھیلے کپڑے ،دھول سے اٹے بے ترتیب بال، لہجے میں کرختگی،پاؤں میں دیسی چپل، تہبندپہنے ہوئے اور سرپر بھاری بھر کم پگڑی بیشک دیہی پسِ منظر کی عکاس ہیں مگر اس وضع قطع کے بندے کے اخلاص، شعور کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے اسکا”پینڈو”کہہ کر مذاق اڑانا ہرگز قرینِ انصاف نہیں۔ چمچ ،کانٹے کے استعمال سے نابلدشخص کو بھی پینڈو کہنا مطلق جاہلیت ہے کیونکہ شریعت اور فطرت کے عین مطابق ہاتھ کی انگلیوں سے کھانے کا طریقہ تووہ جانتا ہے اورکھانے کے آداب میں یہ بھی ہے کہ سب سے بڑی عمروالے بزرگ ایک دوسرے کو دعوت دیتے ہوئے کہ آپ کھانا شروع کریں ہے تاکہ کسی قسم کی ہچکچاہٹ کی گنجائش نہ رہے اور کھانا کھانے کے دوران اپنائیت کا احساس ہو نہ کہ اجنبیت کا۔ لفظ”پینڈو”کو بد تہذیبی ، ناشائسشتگی، بد تمیزی اور بد اخلاقی رویوں سے جوڑنا انتہائی نامناسب ہے اسی طرح کم علم ، جاہل ،گنوار اور اجڈپن کو بھی”پینڈو”کہناقرینِ انصاف نہیں۔سادگی تصنع سے پاک ،اجلی طبیعت ،صاف دل و دماغ، منافقت سے کوسوں دوردھوکہ ، فریب، چالبازی سے پاک ، ھمدرد اور غمگسار شخص کو “پینڈو” کہا جائے تو یہ نہ صرف اعزاز ہے بلکہ اس کی خوبیوں کا اعتراف بھی ہے ۔ دینِ اسلام بھی ہمیں ایک دوسرے کے متعلق اچھا گمان رکھنے کا حکم دیتا ہے،اور ایک دوسرے کا مذاق اڑانے سے منع بھی کرتا ہے۔
بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی نئی ترقی یافتہ جگہ پر جانے جدید سہولت کے استعمال میں ہچکچاہٹ پیش آتی ہے اور وہاں موجود لوگوں سے رہنمائی مطلوب ہوتی ہے تو مدد کرنے والا ہرگز یہ احساس نہ ہونے دے کہ وہ اس کی کم علمی یا نئے ہونے کا مذاق اڑارہاہے بلکہ اسے سکھائے کہ ایسے یہ کام کرنا ہے۔قرآن مجیدمیں حضرت سلیمانؑ کا واقعہ درج ہے کہ آپ نے شیشے کا فرش ملکہ سبا کے لیے تیار کرایاتھا اور اس نے پاؤں رکھتے ہوئے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا تھا کہ یہ تو پانی ہے۔ ایک مرتبہ بینک اکاؤنٹ کے سلسلہ میں اعلیٰ لباس میں خوش اخلاق ایک آفیسر کے پاس موجود تھا ایک میلے کچیلے کپڑوں اور دبیز تہہ کی واسکٹ پہنے شخص دفتر میں داخل ہوا بینک آفیسر نے اس شخص کو نظر انداز کرتے ہوئے کام جاری رکھا کچھ دیرانتظار کے بعد جب ولائتی زبان میں میلے کچیلے کپڑے پہنے شخص نے آفیسر کو مخاطب کیا اور آنے کا مدعا بیان کیا تو وہ آفیسر دم بخود رہ گیا اور ہاتھ ملتے رہ گیا۔ گذشتہ دنوں تواتر کے ساتھ میڑوبس سروس راولپنڈی کے ذریعے سفر کرنے کا موقع ملا چند طالب علموں کے درمیان گفتگو میں “پینڈو” کی اصطلا ح استعمال ہوئی ۔دودہائیوں کا سفر طے کرنے کے باوجود ہمارے کالج کے زمانہ اور آج اکیسویں صدی میں قدم رکھتے نوجوان کے خیالات میں کوئی فرق نظر نہ آنے کی وجہ سے بہت ملال ہوا۔ہم تو اقوام عالم کی رہنمائی اور امامت کے متلاشی ہیں مگر فکر، ذہن ،شعور ،علم کی کون سی درجہ بندی اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ علامہ اقبال ؒ نے تو ہمیں یہ سبق پڑھایا کہ
سبق پڑھ عدالت کا ، شجاعت کا، صداقت کا
لیاجائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
معاشی ،معاشرتی بڑبونگ کا شکار ہمارے حکمران جن کے پاس اس قوم کی ذہنی تربیت کا کوئی پروگرا م نہیں ،یکجہتی کا کوئی نظریہ نہیں آج قومی سیاسی افق پر ایک دوسرے کا استہزاء، جھوٹ کے ذریعے وفاداریوں کا چرچا اور بد دیانتی کو سچ کا چر کا لگایا جارہا ہے اور اعلیٰ عدالت فیصلے کے لیے وکلاء کی دلیلوں کا جائزہ لے رہی ہے ۔کوئی بھی عہدیدار خود احتسابی کرتے ہوئے اعتراف حقیقت نہیں کر رہا۔ کسی کی بات میں وزن نہیں ۔ ہمارے ان رویوں کے کیا نتائج آئیں گے اور ہمارا مستقبل کیا ہوگا۔ یہ وقت ہی بتائے گا۔ ہم آہینگی، قومی یکجہتی سے بہت دور ہم جاتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ایک دوسرے کا مذاق اڑا کر اورنیچا دکھانے کی خاطر حربوں کا استعمال ہماری تہذیب، شائستگی اور معاشرتی اقدار کا جنازہ نکال دے گا۔{jcomments on}

اپنا تبصرہ بھیجیں