یہ دنیا یونہی نہیں بن گئی کوئی ایک دھماکہ، کوئی اتفاقیہ ٹکراؤ یا حادثاتی کیمیاوی تعامل اس نظم کو جنم نہیں دے سکتا جس میں رات دن کے آپسی تعاقب سے لے کر زمین کی گردش، موسموں کا تغیر، ہواؤں کا رخ، بارش کے قطرے اور انسانی دماغ کی پیچیدگی تک سب کچھ مکمل ہم آہنگی میں رواں دواں ہے۔ تخلیقِ کائنات کوئی بے حس، غیرشعوری مظہر نہیں بنگ بینگ نامی دھماکہ نہیں، بلکہ ایک “کن” کے حکم سے نکلا ہوا مظہرِ حکمت ہے۔ کن فیکوں کے ارادے کے تحت خلق شدہ باقاعدہ مربوط تخلیقی نظام ہے۔ یہی حکم تھا جس نے خلا کی خاموشی میں روشنی کی پہلی کرن کا تڑکا ڈالا۔ یہی “کن” وہ صوتی توانائی تھی جس نے مادے کو روپ دیا، اسے کثافت عطا کی، مرکزیت دی اور پھر وہ ذرے، ستارے، کہکشائیں، سیارے، زمینیں، پانی اور پہاڑ وجود میں آئے۔ فطرت کی ان شاہکار تخلیقات میں پہاڑ بھی ایک بہت نادر نشانی ہیں۔
پہاڑ فطرت کے خاموش نگہبان ہیں، جو اپنی بلند چوٹیوں اور پُراسرار وادیوں کے حیرتکدوں میں آنے والوں انسانوں کو گہرا سکون عطا کرتے ہیں۔ ان کی بلندیاں زمین سے آسمان تک پھیلی ہوئی ایسی عظمت کی علامت ہیں جو نہ صرف آنکھوں کو خیرہ کرتی ہیں بلکہ دل و دماغ کو بھی سرشار کر دیتی ہیں۔ جب سورج کی پہلی کرن پہاڑوں پر پڑتی ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے قدرت نے وائٹ گولڈ کی چادر پھیلا دی ہو۔
ان کی خاموشی میں لالہ صحرائی کی طرح ایک گہری گفتگو چھپی ہوتی ہے، جو صرف وہی سن سکتا ہے جو فطرت کی زبان سے واقف ہو۔
سردیوں کے موسم میں جب برف کی سفید چادر پہاڑوں کو ڈھانپ لیتی ہے تو یہ منظر کسی خواب کی مانند محسوس ہوتا ہے۔ ہر شے خاموش اور منجمد سی لگتی ہے، جیسے وقت تھم گیا ہو۔ برف کے نیچے چھپے درخت، چھوٹی چھوٹی ندیوں کی آواز، اور دور دور تک پھیلی سفیدی ایک ایسی فضا پیدا کرتی ہے جو روح کو ٹھنڈک بخشتی ہے۔ یہ موسم نہ صرف خوبصورتی کا مظہر ہوتا ہے بلکہ اس میں ایک عجب وقار اور سادگی بھی پوشیدہ ہوتی ہے۔ یہ ایک غیر محسوس طریقے سے پھیلا ہوا تازگی بھرا پھوٹتا حسن، خوشبو کی اڑتی ہوئی لپٹیں گہری خاموشیوں میں ڈپ تنہا پہاڑ ایک الگ جنت نظیر وادی بسائے ہے کہ کوئی مشاق آنکھ، ذہن آئے اسے دیکھے اور تاحد نظر خوبصورتی کو پلکوں میں سمیٹ لے۔
پہاڑوں کی قد و قامت انسانی آنکھ کو ایک الگ سحر انگیزی میں لے جاتی ہیں۔ جب ہم سکردو جیسے علاقوں میں پہاڑی راستوں پر سفر کرتے ہیں، تو بل کھاتی، گھومتی ہوئی سڑکیں ہمیں کسی نہ ختم ہونے والے خواب کی طرح محسوس ہوتی ہیں۔
ایک طرف دیوقامت چٹانیں آسمان سے باتیں کر رہی ہوتی ہیں، اور دوسری طرف ہم، انسان، جانور یا پرندے، اُن کے دامن میں ایسے نظر آتے ہیں جیسے کوئی چیونٹی ہاتھی کے قدموں میں آہستہ آہستہ رینگ رہی ہو۔ ہر موڑ پر لگتا ہے جیسے ہم ابھی کچھ بھی نہیں طے کر پائے، جیسے پہاڑ ہم سے کہہ رہے ہوں: “تم ہمارے قدموں کے ذرے ہو، ہمارے قد کو سر نہیں کر سکتے، صرف گزر سکتے ہو۔” یہ احساس انسان کو عاجزی سکھاتا ہے۔
پہاڑوں کی ساخت اور تخلیق دراصل زمین کی اندرونی حرکات کا ایک عظیم الشان مظہر ہے۔ سائنسی طور پر پہاڑ اُس وقت بنتے ہیں جب زمین کی ٹیکٹونک پلیٹیں آپس میں ٹکراتی ہیں یا ایک دوسری کے نیچے دھنس جاتی ہیں، جس کے نتیجے میں زمین کی سطح اُبھرتی ہے اور رفتہ رفتہ اونچی چٹانوں اور پہاڑوں کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ بعض پہاڑ آتش فشانی عمل سے بھی وجود میں آتے ہیں، جب زمین کے اندر سے لاوا نکل کر سطح پر جم جاتا ہے۔ لاکھوں برسوں کے ارتقائی عمل سے یہ پہاڑ اپنی موجودہ شکل اختیار کرتے ہیں۔ ان کی تہہ در تہہ چٹانیں زمین کی تاریخ کے پُرانے ابواب سناتی ہیں اور ان میں محفوظ فوسلز، معدنیات اور ساختی نقوش سائنس دانوں کے لیے قدرت کی کتاب کے صفحات کی مانند ہوتے ہیں، جنہیں پڑھ کر وہ نت نئے زاویوں کی کھوج کرتے ہیں۔
یہ تنہائیوں، اکلاپے اور خاموشیوں کے نہ ختم ہونے والے سلسلے (پہاڑوں کا مسکن) دراصل زمین کے قدرتی خزانوں کے محافظ ہوتے ہیں۔ یہ قدرت کی تجوریاں ہیں جن کے اندر صدیوں پر محیط زمینی دباؤ، حرارت اور کیمیائی تعاملات کے نتیجے میں قیمتی معدنیات اور جواہرات کے خزانے تشکیل پاتے ہیں۔ ان میں کوئلہ، تانبا، لوہا، سیسہ، سنہرا، سنگِ مرمر، نمک اور دیگر دھاتیں شامل ہیں، جو انسانی صنعت، تعمیرات، اور توانائی کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔ بعض پہاڑی علاقوں میں نیلم، زمرد، لاجورد، اور یاقوت جیسے نایاب جواہرات بھی پائے جاتے ہیں، جو دنیا بھر میں زیورات اور طبی مقاصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ پاکستان کے شمالی علاقوں، خصوصاً سوات، گلگت اور چترال، معدنی ذخائر کے لحاظ سے نہایت زرخیز مانے جاتے ہیں۔
ان کے دامن میں چھپے خزانے بھی کم حیران کن نہیں سونا، تانبا، کوئلہ، قیمتی پتھر، نمک، پانی کے ذخائر چشمے یہ سب صرف مادی وسائل نہیں بلکہ خالق کی طرف سے زمین پر انسان کے لیے رکھے گئے امانت دار راز ہیں۔ اللہ نے انسان کو وہ قوت، بینائی، عقل دی گئی ہے جو اُسے پہاڑوں کے پار دیکھنے کی صلاحیت دیتی ہے۔ اسی بنا پر کبھی کبھی وہ خود کو پہاڑوں سے بھی بلند تصور کرتا ہے۔ پھر قرآن اسے اپنی ان نشانیوں کی طرف بلاتا ہے، اپنی آیات کے ذریعے پہاڑوں کی حقیقت یوں بیان فرماتا ہے کہ جو بھی اس دنیا میں بنا ہے اسے ختم بھی ہونا ہے۔
“اور تم پہاڑوں کو دیکھتے ہو تو انہیں (اپنی جگہ) جما ہوا گمان کرتے ہو حالانکہ وہ بادلوں کی طرح اُڑ رہے ہوتے ہیں۔”
(سورہ النمل: 88)۔
یہ وہ لمحہ ہے جہاں ہماری ظاہری آنکھ اور حقیقت کے درمیان پردہ چاک ہونے لگتا ہے۔ پہاڑوں کا ذکر قرآن میں بارہا آیا رواسی کے طور پر، جو زمین کو ہل ہل کر چلنے سے روکتے ہیں؛ نشانیوں کے طور پر، جو غور و فکر والوں کے لیے نشانِ ہدایت ہیں؛ اور پھر قیامت کے روز کی وہ ہولناک گھڑی بھی جہاں پہاڑوں کا سب کچھ بدل جائے گا۔ ایک اور آیت میں یوں فرمایا۔۔
“اور پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اُڑتے پھریں گے۔”
(سورہ المعارج: 9)
“اور پہاڑ ایسے ہو جائیں گے جیسے دھنکی ہوئی رنگ برنگی اون۔ (سورہ القارعہ: 5)
قیامت کی ہولناکی کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ اس سورۃ القارعہ میں ایک ایسا منظر پیش کرتے ہیں جو انسانی ادراک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ پہاڑ، جو دنیا میں استقامت، جمود اور عظمت کی علامت سمجھے جاتے ہیں، اس دن ایسے ہو جائیں گے جیسے دھنکی ہوئی روئی، ہلکی، بے وزن، بکھری ہوئی۔ گویا جس شے کو انسان ناقابلِ تسخیر اور ابدی سمجھتا تھا، وہ بھی فانی ثابت ہو گی۔ اللہ نے آیات میں انہیں مقرر اڑتے ہوئے بتایا ہے۔
یہ تمثیل دراصل کائناتی نظام کی مکمل شکست و ریخت کا اعلان ہے۔ جب صور پھونکا جائے گا، زمین اپنی گرفت کھو دے گی، اور وہ پہاڑ، جنہیں انسان نے عظمت، طاقت اور بقاء کی علامت سمجھا تھا، فضاء میں اڑتے ذرات کی مانند ہو جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ یہ پہاڑ، جو مادی لحاظ سے سب سے وزنی اور سخت وجود ہیں، آخر دھنکی ہوئی روئی جیسے بے وزن اور منتشر کیسے ہو جائیں گے؟
یہ منظر ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا تخلیق کردہ نظام، جب کسی مخلوق کی مدتِ زیست مکمل ہونے پر اسے فنا کرتا ہے، تو وہ نہ اس کی ظاہری اہمیت دیکھتا ہے، نہ اس کی طاقت، حیثیت یا حسن۔ وہ نہ اشرافیہ کو بچاتا ہے نہ محروم کو ترجیح دیتا ہے۔ یہاں صرف اُس کے خودکار قانون کی حکمرانی ہے۔
یہی وہ مقام ہے جہاں ہمیں سائنسی انداز میں غور و فکر کی اشد ضرورت ہے۔ پہاڑ اور روئی، یہ دونوں متضاد حقیقتیں ہیں ایک وزنی اور جامد، دوسری ہلکی اور متفرق۔ مگر جب قرآن ان دونوں کو ایک سانچے میں رکھتا ہے، تو یہ فطرت کے اس عمیق راز کی طرف اشارہ ہے کہ ربِ کائنات تضاد سے کمال کا ظہور کروا سکتا ہے۔ یہ ریورس انجینئرنگ کا ایک الٰہی فارمولہ ہے۔ اس میں مخفی فطری قانون کو تلاشنا ہو گا۔۔
یہ محض ایک شعری یا ادبی تشبیہ نہیں، بلکہ ایک گہرا سائنسی راز بھی ہے۔ جب نبی مکرم ﷺ سے موت کے بارے میں سوال کیا گیا، تو قرآن نے فرمایا "اے نبی کہہ دیجئے موت اذنِ ربی ہے اور اس کا وقت مقرر ہے"۔ گویا موت ایک نظام، ایک "فارمولا" کے تحت عمل میں آتی ہے۔ جسے اللہ نے کن فیکوں کہہ کر خلق کیا۔ کیونکہ لفظ کن فیکوں رمز ہے اس کا معنی صرف اللہ اور رسول ہی جانتے ہیں ہم یہاں قرآن و سنہ کی حدود میں رہتے ایک اعتبار لیتے ہیں کہ اس آیت میں بات زندگی اور موت کے متعلق کی گئی، جسے مادے کی دنیا میں BIO laws ڈیل کرتا ہے تو ہم سمجھ سکتے ہیں کہ یہاں اذن یا کن سے مراد کن فرما کر زندگی اور موت کی پیدائش کے تمام اصول اور انکی تفصیلات تخلیق کرنا ہے، اور یہ زندگی کے تخلیقی فارمولہ کا ریورسل یا مائنس ہے۔۔
اگر ہم یہ مان لیں کہ موت ایک سائنسی حقیقت ہے، جس سے ہر چھوٹے بڑے وجود، نفس کو گذرنا ہے۔ جو مخصوص کیمیائی یا طبعی اصولوں کے تحت واقع ہوتی ہے، تو ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ پہاڑوں کے وجود اور وزن کی تخلیق کا بھی کوئی فطری فارمولہ ہے۔ جیسے پانی H₂O کے فارمولے سے وجود میں آتا ہے، اگر اس کلیے کو غیر فعال (ریورس) کر دیا جائے تو پانی کی صورت ختم ہو جائے گی۔ بعینہ، پہاڑوں کے وزن کے تخلیقی فارمولے کو اگر "ڈی ایکٹیویٹ" کر دیا جائے، تو وہ دھنکی ہوئی روئی کی طرح بے وزن ہو جائیں گے۔ ثابت ہوا ریورس انجینئرنگ کی طرح ریورس فارمولائزیشن کی سائنس کو سیکھنا ہو گا۔ ہمیں اس کی تحقیق اسی طرح کرنی ہوگی جیسے sir Isaac Newton نے سیب نیچے کو کیوں گرتا ہے یہ اوپر کو کیوں نہیں جاتا کی تشکیک کے ذریعے Law of Gravity کو متعارف کروایا۔
یہاں ہمیں ایک اور عملی پہلو کی طرف سوچنا چاہیے: اگر انسان فطرت سے وہ de-weighting formula سمجھ لے جس سے پہاڑ کی طاقت ختم ہوتی ہے، تو ممکن ہے کہ انسان خود کو بھی مخصوص مواقع پر بے وزن کر سکے۔ یہ سائنسی کامیابی انسان کو کم وسائل کے ساتھ خلائی یا فضائی سفر کی اجازت دے سکتی ہے، زمینی ٹرانسپورٹ کے مہنگے اور محدود ذرائع غیر ضروری ہو جائیں، پھر وہ زمین اور ذرائع جو سڑکوں اور راستوں کے لیے استعمال ہو رہی ہے، تعلیم، صحت اور دیگر انسانی ضروریات کے لیے وقف کیے جا سکیں گے۔ اس سے خرچ ہونے والے کثیر بجٹ بھی ہم انسانی فلاح کے لیے مختص کیا جا سکتے ہیں۔
لیکن اس تمام فکر کا نچوڑ یہ ہے کہ جو کچھ ظاہری ہے وہ فانی ہے۔ اصل حقیقت انسان کی روح، اس کا عمل اور اس کا اپنے خالق سے ربط ہے۔ قرآن اس حقیقت کو واضح کرتے ہوئے فرماتا ہے:
“تمہارا گوشت اور خون ہم تک نہیں پہنچتا، بلکہ تمہاری نیت پہنچتی ہے” (سورۃ الحج: 37)
یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ صرف اوصاف (یعنی اعلی فطری قوانین/اصول) کو ہی بقاء حاصل ہے، نہ کہ اجسام کو۔ لہٰذا انسان کو اپنی ذات، قوم، اور مفادات سے بلند ہو کر انسانیت کی بھلائی کے لیے فطرت میں چھپے مسخر شدہ الٰہی فارمولے تلاش کرنے چاہئیں۔ یہی وہ علم ہے جو انسان کو آسانی، ترقی اور فلاح کی راہوں پر گامزن کرے گا۔ امین۔۔۔واللہ اعلم (امجد علی)