پُرتشدد احتجاج،ناقابل قبول

ملک پاکستان سمیت دنیابھر میں ہر قوم ہر شہری اور ہر اس شخص کو احتجاج کاحق حاصل ہے جسکی آواز ناسنی جارہی ہواسکوانصاف نہ مل رہاہو یاپھراسکی آواز اعلی حکام عوامی نمائندوں تک نہ پہنچتی ہوان سب صورتوں میں دنیا بھرکہ لوگ احتجاج ریکارڈ کرواتے ہیں،بعض اوقات اس احتجاج کی شدت کو برقرار رکھنے اور حکومت وقت پر دباؤ ڈال کر اپنے حقوق منوانے کیلئے بھوک ہڑتال کی جاتی ہے مختلف شاہراہوں کو بند کیا جا تا ہے اگرپھر بھی ان لوگوں کی بات ناسنی جائے انکی آواز،حقوق کو اہمیت نہ دی جائے توپھریہ لوگ حکومت وقت کی طرف سے مخصوص علاقے،ریڈزون مخصوص شاہراہوں کی طرف مارچ بھی کرتے ہیں جہاں حکومت نے پابندی لگائی ہوتی ہے اس سب صورتحال میں حالات کو کنٹرول میں کرنے کیلئے حکومت اور اداروں کی جانب سے ایمرجنسی،دفعہ 144 کا نفاذ بھی کیا جاتا ہے جس پر فوری عمل درآمد بھی کروایا جاتا ہے اور خلاف ورزی کی صورت میں گرفتاریاں بھی عمل میں لائی جاتی ہیں اور کارکنان اور لیڈران کوخلاف ورزی کی صورت میں جیل کی سیر بھی کروائی جاتی ہے اس سب صورتحال کومدنظررکھاجائے تویہ بات عیاں ہے کہ پرامن احتجاج ہرشہری کابنیادی حق ہے اپنے حقوق کی جدوجہدکیلئے،اپنی آواز کو اعلیٰ حکام تک پہنچانے کیلئے احتجاج،بھوک ہڑتال،اور موجودہ دور میں میڈیا،سوشل میڈیا کا سہارا بھی لیناچاہیے مگرپرامن احتجاج کرتے ہوئے ملکی قوانین،اعلی عدلیہ کے فیصلے،اہم اداروں کاتقدس،عام عوام کی تکلیف،راستوں کی بندش ایمبولینس کی روانی کومتاثرنہیں کرناچاہیے اسی طرح ملک کا گھیراؤ،آگ لگانا،جلاو گھیراؤ کانعرہ،لوٹ مار،وغیرہ سے مکمل اجتناب کرناچاہیے کیونکہ پرامن احتجاج کا مطلب اپنی آواز اعلیٰ حکام تک پہنچانا ہے اپنے حقوق کاحصول ممکن بناناہے نہ کہ ملکی قوانین اور قومی املاک کو نقصان پہنچاناہے اگر گھیراؤ جلاؤ کیاجائیگاتو کسی کانہیں بلکہ اپنا اپنے کاروبارکا اپنے ملک کااوراپنی قوم کا نقصان ہوگااسلام کسی انسان کو تکلیف پہنچانے اورکسی کے مال کاروبار کو ایذاء دینے سے منع کرتاہے اسلام تو ایسے معاشرے کوتسلیم ہی نہیں کرتاجس میں انسانیت کوتکلیف دی جائے یاانسانیت کی تذلیل کی جائے حقیقی اسلامی معاشرہ وہی ہے جس میں ایک دوسرے کاخیال رکھاجائے ایک دوسرے کااحترام کیاجائے ایک دوسرے کی عزت نفس مجروح نہ ہوایک دوسرے کی راحت وآرام،سکون کومدنظر رکھا جائے، باہمی تعلقات ملنساری،حسن اخلاق اور خیرخواہی مقدم ہواسلام انہی تعلیمات کادرس دیتاہے کہ ہمدردیاں پروان چڑھیں معاشرے کومعاشرتی زندگی کونقصان پہنچانے والے مثلاً بے جاشدت اورایذاء رسانی کسی کی عزت پامال کرنے سے اسلام ناصرف منع کرتاہے بلکہ ایساکرنیوالوں کی بھرپورمذمت بھی بیان کرتاہے چنانچہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ تم لوگوں کواپنے شرسے محفوظ رکھو یہ ایک صدقہ ہے جو تم اپنے نفس پر کرو گئے‘ جبکہ ایک دوسری روایت میں آتاہے کہ نبی اکرم شفیع اعظمﷺنے ارشادفرمایامسلمان وہ ہے جسکے ہاتھ اورزبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں،پھر فرمایامومن وہ ہے جس سے ایمان والے اپنی جانیں اور اموال محفوظ سمجھیں پچھلے چند دنوں میں جو احتجاج کیا گیا ہے وہ ملکی تاریخ کا بدترین احتجاج ثابت ہوا ہے سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا ہے جی ایچ کیو پر حملہ کیا گیا لاہور کور کمانڈر ہاؤس کو آگ لگائی گئی پشاور میں ریڈیو پاکستان کی عمارت کو جلایا گیا ہے فوجی قافلوں پر حملے کیئے گے ہیں یہ تمام تر صورتحال ناقابل برداشت رہی ہے لیکن پھر بھی اس احتجاج کو سیکورٹی اداروں نے برداشت کیا ہے جو ان کی بہت بڑی ہمت ہے نقصان کسی کا بھی نہیں ہوا ہے نقصان ہمارے ملک کا ہی ہے جو توڑ پھوڑ ہوئی ہے وہ دوبارہ ملکی خزانے سے ہی پیسہ نکلے گا مرمت ہو گی اس تمام صورتحال میں چند چیزیں سامنے آئیں اور اسکاایسانتیجہ نکلاجو نہیں نکلناچاہیے مثلاً جب احتجاج ہوتا ہے تو سب سے پہلے روڈ بلاک ہوتی ہے جسکی وجہ سے لوگوں کی آمدورفت متاثر ہوتی ہے بہت سارے لوگ فیملی سمیت سفر میں ہوتے ہیں جو پھنس جاتے ہیں،بعض اوقات مریض ایمبولینس سمیت تکلیف برداشت کرتے ہیں اور اذیت سے دوچار ہوتے ہیں بازار وغیرہ بند ہوجاتے ہیں جسکی وجہ سے کاروبار متاثر ہوتا ہے اور ر معاشی نقصان ہوتا ہے اور ر وڈ بلاک ہونے سے ناصرف مسافروں کو مشکلات کاسامناکرناپڑتاہے بلکہ ایمبولینس سروس بھی متاثر ہوتی ہے جس سے لوگوں کاہسپتال پہنچنابھی مشکل ہوجاتاہے اس سے بڑھ کر کچھ لوگ جلاؤ گھیراؤ لوٹ مار کرتے ہیں جس سے ملک وقوم کی بدنامی توہوتی ہی ہے ساتھ ہی ساتھ لوگوں کانقصان بھی ہوتاہے سرکاری گاڑی جلائی جاتی یاسرکاری ملازمین پر تشدد کیاجاتاہے اس تمام صورتحال میں ملک وقوم کانقصان ہوتاہے ایساکسی بھی سیاسی جماعت اور کارکنوں کو نہیں کرناچاہیے کیونکہ احتجاج کامقصد اپنی آواز بلند کرنا اور حصول حقوق ہے ناکہ نقصان کرنا حکومت وقت کوبھی چاہیے کہ وہ ایسا قانون بنائے جس سے احتجاج لانگ مارچ اور دھرنے کی آڑ میں جلاؤ گھیراؤ،روڈ بلاک،مارکیٹ بلاک راستے کی بندش اور ریاستی اداروں پر حملہ آور ہونے اور عام آدمی کو تنگ کرنے کی کسی کو جرات نہ ہو پرامن احتجاج کی اجازت بھی ہے اور ضرورت بھی جبکہ احتجاج کی آڑ میں جلاؤ گھیراؤ لوٹ مار،قومی املاک کو نقصان پہنچانا،مسافروں خاص کر مریضوں کوروکنایاان کیلئے روکاوٹیں کھڑی کرناکسی بھی لحاظ سے نہ تو درست ہیں اور نہ کسی کیلئے قابل قبول ہیں صرف یہی دیکھ لیں نویں جماعت اور دیگر کلاسز کے پیپرز اس خطر ناک صورتحال کی وجہ سے کینسل ہو گئے ہیں جس میں بچوں کا بہت زیادہ نقصان ہوا ہے سکول و کالج بند ہو گے ہیں ان تمام معاملات کے پیچھے نقصان کس کا ہوا ہے ہمار ا اپنا ہی ہوا ہے ہم کسی دوسرے کا کچھ نہیں بگاڑ رہے ہیں اپنی مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں احتجاج کے دیگر بھی بہت سارے طریقے ہیں اس کا جو موجودہ طریقہ استمعال کیا گیا ہے اس کی وجہ سے پورا ملک داؤ پر لگ چکا ہے جو لوگ کبھی سیاست کے پاس سے بھی نہیں گزرے ہیں وہ بھی اس تمام تر صورتحال سے سخت پریشان ہیں پر تشدد احتجاج ملک کیلئے سخت نقصان دہ ثابت ہوں گے دوسری طرف حکومت کی بھی یہ زمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایسے اقدامات سے اجتناب کرے جو ملکی سالمیت کیلئے خطر ناک صورتحال اختیار کر جائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں