پوٹھوہار پریس کلب جمہوری قدریں مضبوط کرنے لگا

قارئین کرام! پاکستان کے قومی الیکشن کے علاوہ ہر فورم، تنظیم میں ہونے والے الیکشن جمہوریت کا حسن ہیں، قومی الیکشن اس لئے نہیں کیونکہ وہاں سب چلتاہے اور اسٹیبلشمنٹ جسے چاہتی ہے نواز دیتی ہے اور رزلٹ روک کر راتوں رات اپنے رزلٹ مرتب کرکے اگلی صبح حکمرانی کا تاج من پسند شخص کے سر پہ سجادیا جاتاہے، اس کے علاوہ آپ بلدیاتی الیکشن میں دیکھیں تو ایک علاقے میں جیتنے والا کونسلر عوام کے حقیقی اور دھاندلی سے پاک ووٹ سے منتخب ہوتاہے اور اسی لئے وہ عوام کو جوابدہ بھی ہوتاہے اور لوگوں کے کام بھی کرتاہے۔ اسی طرح کسی تنظیم یا ادارے کے الیکشن بھی صاف شفاف ہوتے ہیں جیسا کہ بار ایسوسی ایشنز کا الیکشن، پریس کلب کا الیکشن، صحافتی تنظیموں کا الیکشن جس میں غیرجانبدار الیکشن بورڈ تمام الیکشن کے پراسس کو مکمل کرتاہے اور اس پہ سب اعتماد کرتے ہیں اور کسی قسم کے اعتراض پر اس ووٹنگ کے عمل کو چیلنج بھی کیا جاسکتاہے۔ پوٹھوہار پریس کلب گوجرخان کی سالہا سال کی تاریخ میں باضابطہ الیکشن کی روایت کبھی نہیں رہی اور نہ ہی یہاں جمہوریت کو پسند کیاجاتا تھا، سلیکشن کے عمل کو بار بار دہرایا جاتا رہا اور اپنے من پسند اور جی حضوری والے افراد کو عہدوں سے نوازا جاتا رہا۔ اس ضمن میں صرف من پسند افراد کو ہی پریس کلب کا ممبر بنایا جاتا تھا،جیسا کہ راقم کی درخواست چار سال تک (صرف پسند نہ ہونے کی وجہ سے) التواء میں رکھی گئی تھی۔ پھر روایت بدلی اوردبنگ صحافی خان لیاقت علی نے گزشتہ سال تمام نشستوں پر الیکشن کرانے کی ٹھان لی اور چونکہ وہ خود بھی امیدوار تھے تو انہوں نے جمہوری پراسس کو ترجیح دیتے ہوئے آخری وقت تک ڈٹ کر مقابلہ کیا، اپنے پورے پینل میں صرف اپنی نشست حاصل کرنے میں کامیاب رہے لیکن ایک نشست کے بل بوتے پر انہوں نے بہت سارے کام کئے جن میں پریس کلب کا آئین سرفہرست ہے، پوٹھوہار پریس کلب میں جمہوری پراسس کو ہر سطح پر سراہا گیا اور اس کی پذیرائی ہوئی،اسی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے اس سال بھی آئین کے مطابق جنرل باڈی کے اجلاس میں غیرجانبدار الیکشن بورڈ کی منظوری دی گئی اور جرنلسٹ پینل اور فرینڈز جرنلسٹ پینل نے اتحاد کیا اس اتحاد کو دیکھتے ہوئے سلیکشن کے پرچاروں نے سر جوڑ لئے اور سوچنے لگے کہ اب یہاں ہماری دال نہیں گلے گی، اسی سوچ بچار میں انہوں نے الیکشن کو روکنے کیلئے روڑے اٹکانے شروع کر دیئے اور پہلی بار پوٹھوہار پریس کلب کے الیکشن پراسس کو عدالت تک لے جایا گیا، حالانکہ الیکشن بورڈ آئین کے مطابق جنرل باڈی سے منظور شدہ تھا لیکن اس کو متنازعہ بنانے کیلئے سب کام کئے گئے، حکم امتناع کا دعویٰ دائر کیا گیا کہ الیکشن کو روکا جا سکے، مگر عدالت نے درخواست مسترد کر کے الیکشن پراسس کو جاری رکھا اور یوں وقت پر الیکشن ہو گئے اور دو گروپس کا اتحاد کامیاب ہو گیا، احمد نواز کھوکھر صدر، جبکہ زرین خان جنرل سیکرٹری منتخب ہوگئے، اس اتحاد کے دیگر تمام امیدوار بھی کامیاب ہوئے اور باضابطہ ووٹنگ ہوئی اور الیکشن کا پراسس تکمیل کو پہنچا جس پر الیکشن بورڈ مبارک باد کا مستحق ہے۔ اس الیکشن کے بعد الیکشن رزلٹ کو متنازعہ بنانے کیلئے سوشل میڈیا پر طوفان برپا ہے اور طرح طرح کی تحریریں لکھی جارہی ہیں جو کہ بے بنیاد ہیں اور ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پریس کلب میں اجارہ داری کے خاتمے پر چند افراد کو سخت تکلیف ہے جو اپنے آپ کو پریس کلب کا مالک سمجھ بیٹھے تھے، اس پریس کلب نے بیشمار افراد کو عزت دی، انہوں نے اس پریس کلب میں رہتے ہوئے اپنی پہچان بنائی اور پھر اب ایسا وقت آیا ہے وہی لوگ اس پریس کلب کیخلاف سازشیں کررہے ہیں جو کہ ایک قابل مذمت فعل ہے، اپنی اجارہ داری کے خاتمے کی وجہ سے جمہوری عمل کی مخالفت کرنا کسی طور درست نہیں ہے۔ ایک بااختیار باڈی الیکشن کے ذریعے منتخب ہو چکی ہے اور اس بااختیار باڈی نے بااختیار فیصلے کرنے ہیں جن فیصلوں کے ڈر سے مخالفین ہتھے سے اُکھڑ چکے ہیں اور طرح طرح کے پراپیگنڈے کئے جارہے ہیں۔ راقم چونکہ اسی منتخب باڈی کا حصہ ہے اور 49ووٹ لے کر منتخب ہواہے تو راقم اپنی پوری منتخب کابینہ کی طرف سے یہ پیغام دینا چاہتاہے کہ ان شاء اللہ آئین پوٹھوہار پریس کلب کے منافی کوئی کام نہیں ہوگا اور آئین کے تحت سارے کام ہوں گے، اس آئین کے تحت کسی کی ممبر شپ جاتی ہے تو ضرور جائے گی، شرپسندی کی بناء پر کسی کی رکنیت معطل کرنا پڑی تو ضرور کی جائے گی، پریس کلب کی عمارت اور پریس کلب کے ممبران کیخلاف ہونے والی سازشوں کا بھرپور آئینی قانونی و اخلاقی جواب دیا جائے اور اب پریس کلب کو کسی کی اجارہ داری کی نذر اور ذاتی مفاد کیلئے استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔ والسلام

اپنا تبصرہ بھیجیں