پوٹھوہار میں گندم کی فصل تیار

پاکستان ایک زرعی ملک ہے جسکی 70 سے 75 فیصد آبادی زرعی شعبہ سے منسلک ہے پنجاب کے دیگر علاقوں کی طرح خطہ پوٹھوہار کی زمین بھی اناج کی پیداوار کے لحاظ سے سونا اگلتی ہے یہاں سال بھر میں گندم مکئی اور مونگ پھلی کی ریکارڈ فصلیں حاصل کی جاتی ہیں اگر بادل تواتر سے برسیں تاہم کسانوں کی گزر بسر کا زیادہ تر انحصار گندم کی فصل کی بہترین پیداوار پرہوتا ہے اپریل کا مہینہ خطہ پوٹھوہار میں گندم کی فصل کی کٹائی کا مہینہ ہوتا ہے خطہ پوٹھوہار میں وسط اپریل کے بعدگندم کی فصل کی کٹائی کا کام شروع ہوجاتا ہے جو مئی کے پہلے ہفتے تک جاری رہتا ہے تاہم اب کٹائی کے عمل کا آغاز رمضان المبارک کے آخری عشرے میں مکمل ہوگا تاہم عیدالفطر کے بعد ہی گہائی کا عمل تیز ہوگا جس میں خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہوتی ہیں تاہم جدید مشینری کی ایجاد سے اب ہاتھوں سے فصل کی کٹائی کاکام کافی حد تک کم ہوگیا ہے جبکہ اب کسان گندم کی کٹائی کے لیے اجرتی مزدوروں کی خدمات بھی حاصل کرلیتے ہیں حکومت نے گزشتہ سال گندم کی سرکاری قیمت 1800 روپے من مقرر کر رکھی تھی جبکہ اوپن مارکیٹ میں اس وقت گندم 2200 روپے فی من میں بک رہی ہے تاہم ان دنوں میں جبکہ کم زرعی زمین کی بدولت پیداوار کی کمی کے باعث کسانوں کے پاس گندم کا سالانہ زخیرہ اب تقریبا ختم ہوچکا ہے تو ایسے حالات میں اب ضرورت مند 2500روپے فی من گندم خریدنے پربھی مجبور ہیں تاہم کسانوں کا حکومت سے یہ ہمیشہ گلہ رہتا ہے کہ جب فصل پک کر کٹائی کے عمل سے گزرتی ہے تو حکومت گندم کی خریداری کے ریٹ انتہائی کم کردیتی ہے جس سے کسان کو اپنی محنت کا پورا معاوضہ نہیں ملتا کسانوں نے حکومت سے آنے والی گندم کی قیمت بڑھانے کا مطالبہ بھی کیا ہے حکومت کو چاہیے کہ وہ کسانوں کے جائز مطالبات منظور کرے تاکہ کسان فصل کی اچھی پیداوار پر اپنی بھرپور توجہ دیے سکیں ہمارے ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر گندم کی ریکارڈ پیداوار کے باوجود بھی آٹے کی قلت کا سامنا رہتا ہے کیونکہ ہماری تین وقت کی خوراک کا سب سے بڑا حصہ گندم کے آٹے کی روٹی ہے ہمارے ہاں سالانہ 124کلو آٹا فی کس کھایا جاتا ہے اور ایک اندازے کے مطابق ہماری 60 فیصد دیہی آبادی کی خوراک روٹی پر ہی منحصر ہے جب پاکستان معرض وجود میں آیا تھا تو وقت اس کی آبادی ساڑھے تین کروڑ تھی صرف ستّر سال میں ہماری آبادی 23 کروڑ تک جا پہنچی ہے یہی وجہ ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے دباؤ کے زیراثر ہماری خوراک کی ضروریات بھی اب کئی گنا بڑھ گئیں ہیں گندم کی وافر پیداوار کے باوجود اگر گندم کی اسمگلنگ پر قابو نہ پایا جائے تو بھی ملک میں آٹے کا بحران امڈ آتا ہے اور دوسری اہم وجہ زخیرہ
اندوزی بھی ہے موجودہ دور میں بیج اور کھاد کی خریداری اور جڑی بوٹیوں کے تدارک کیلیے کیمیائی ادویات کی مہنگے داموں خریداری اور فصل کی کاشت پر اٹھنے والے دیگر اخراجات سے بھی کسان کافی حد تک پریشان ہیں جبکہ ٹریکٹر مالکان بھی پچھلے سال کی نسبت حالیہ عالمی منڈی میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے تناظر میں گندم کی کٹائی اور گہائی کے عمل کیلیے فی کنال اجرت بھی بڑھانے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھے ہیں اور کسانوں کو انکی طرف سے بھی اچھی خبر کی توقع نہیں تاہم پچھلے سال مشینوں کے زریعے گندم کی کٹائی کی فی کنال قیمت 12روپے وصول کی جارہی تھی جبکہ ہاتھوں سے کٹائی کی مزدوری 600روپے فی کنال مقرر تھی تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مہنگائی کے عالم میں ٹریکٹر مالکان کسان کی مجبوریوں کو دیکھتے ہوئے من مانے ریٹ وصول کرنے سے گریز کرینگے یا پھر روایتی انداز میں ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کا بہانہ بنا کر من مانے ریٹ مقرر کریں گے پہلے پہل تو کسان کو گندم کی فصل ٹھکانے لگانے کیلیے پیسوں کی ضرورت نہیں پڑتی تھی گندم کی کٹائی چونکہ ہاتھوں سے درانتی کے زریعے ہوتی تھی اگر اس دور میں فصل کی کٹائی میں کوئی پیچھے رہ جاتا تو پڑوسی رشتہ دار کٹائی میں اسکی مدد کو پہنچ جاتے تھے کیونکہ اس دور میں فصل کی گہائی کے لیے جدید زرعی آلات میسر نہیں تھے اسلیے گندم کھلی جگہ بکھیر کر بیلوں کی جوڑی کیساتھ پلاہی کی شاخیں باندھ کر گول چکر میں بیلوں سے لہتاڑہ کرتے تھے اور یہ عمل سارا دن جاری رہتا تھا گندم کی گہائی کا دن انتہائی سپیشل ہوتا تھا اس دن کی مناسبت سے سکول کے چھوٹے بچے ماسٹر صاحب سے چھٹی لے آتے تھے گندم کی گہائی کے موقعہ پر بھی محلے دار اپنی اپنی بیلوں کی جوڑیاں لے آتے تھے اور گندم کی گہائی میں مدد کی غرض سے ہاتھ بٹاتے تھے شام کو گہائی مکمل ہونے کے بعد مہمانوں کی خاطر مدارت کیلیے حلوے کی سوغات کے بڑے چرچے تھے اس دور میں گندم کو فصل ٹھکانے کیلیے آپسی اتحاد واتفاق اور ہمدردی کے خصائل نمایاں تھے جہاں پہلے دور میں محلے داروں دوستوں ہمسایوں رشتہ داروں اور سکیوں کے میلے ٹھیلے لگتے تھے آج وہاں ویرانی نے اپنے بال کھول رکھے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں