پوٹھوہار میں گندم کی بہترین پیداوار متوقع

گندم ہمارے ملک میں کاشت کی جانی والی اہم غذائی فصل ہے جو وسیع رقبے پرکاشت کی جاتی ہے جوکل کاشت شدہ رقبہ کا تقریباََ 80 فیصدبنتا ہے پاکستان پیداوار کے لحاظ سے دنیا میں گندم پیدا کرنے والے ممالک میں ساتویں نمبر پر ہے گندمکی بہتری کے لئے تحقیقاتی کوششوں کا اآغاز 1926میں ہوا جب سیریل سیکشن لائل پور کا قیام عمل میں لایا گیاجسے بعد میں 1975میں ترقی دے کر ادارہ تحقیقاتی گندم فیصل آباد کا درجہ دیا گیا اب تک گندم کی جو اقسام دریافت کی گئی ہیں انہوں نے عمومی طور پر ملکی سطح اورخصوصی طور پر پنجاب بھر میں گندم کی پیداواربڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے جسکی بدولت آج ہمارا ملک گندم کی پیداوار میں خود کفیل ہوچکا ہے پوٹھوہار کی زمین بڑی زرخیز ہے جو مکئی مونگ پھلی اور گندم کی کاشت کے لیے انتہائی موزوں ہے ملک کے دیگر حصوں کی طرح تحصیل کلرسیداں گوجرخان کہوٹہ چکوال جہلم میں گندم وسیع رقبے پرکاشت کی جاتی ہے خطہ پوٹھوہارچونکہ ایک بارانی علاقہ ہے لہذا گندم کی کاشت کے لیے تروتر اورفصل پکنے تک اس فصل کا انحصار قدرتی بارشوں پر ہوتا ہے حالیہ جنوری میں برسنے والے بارشوں کے سلسلے نے خطہ پوٹھوہار میں گندم کی فصل میں جان ڈال دی ہے کلرسیداں سے لے کر روات تک کے علاقوں میں گندم کی اچھی پیداوار کی توقع ہے تاہم شرط یہ ہے کہ رواں ماہ اور مارچ میں اچھے بادل برسیں ہمارے ملک میں فی ایکڑ اوسط پیداوار27 من ہے مگر جدید زرعی ٹیکنالوجی کے حصول سے گندم کی پیداوار میں بہتری کی گنجائش موجود ہے گو ہم گندم کی پیداوار میں خودکفیل ہوچکے ہیں مگر بدقسمتی سے ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کے طریقوں سے گندم کی اسمگلنگ کی جاتی ہے جسکی وجہ سے موسم سرما میں آٹے کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگتی ہیں جس سے غریب طبقے کی مشکلات مزید بڑھ جاتی ہیں بارانی علاقوں میں 25اکتوبر سے 5نومبر کے درمیان گندم کی کاشت مکمل کرلینی چاہیے ان علاقوں میں زرعی ماہرین کی جانب سے 50کلوگرام فی ایکڑ بیجوں کی شرح کی سفارش کی جاتی ہے گندم کی بہتر پیداوار میں زمین کی تیاری اچھے بیج و قسم کا انتخاب، متوازن کھاد‘بروقت کاشت اورجڑی بوٹیوں کی تلفی انتہائی ضروری ہے 25اکتوبر سے15نومبرکے دوران کاشت کی جانے والی گندم کے لئے شرح بیج 50 کلوگرام فی ایکڑ اور 20 نومبر کے بعد 55کلو گرام فی ایکڑ کے حساب سے بیج استعمال کرنا چاہیے زرعی ماہرین کے مشورے سے کھاد کی مقدار کا تناسب بھی برابر ہونا چاہیے تاہم جڑی بوٹیوں کی وجہ سے گندم کی فی ایکڑ پیداوار میں 30سے 45 فیصد کمی کا اندیشہ رہتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ زرعی ماہرین کی ہدایات کے مطابق جڑی بوٹیوں کی تلفی کے لیے پراثر دوائیوں کا انتخاب اور انکے بروقت اسپرے کو یقینی بنایا جائے تاہم بعض کسان ان دنوں میں جڑی بوٹیوں کی تلفی کے لیے کیمیائی زہروں والی ادویات کا چھڑکاؤجاری رکھے ہوں ہیں جبکہ بعض علاقوں میں گندم کے سٹے نکل آئے ہیں تو ایسی صورت میں گندم کی فصل کو نقصان پہنچنے کا خدشہ موجود رہتا ہے زرد کنگی‘کالی کنگیاری‘سست تیلہ اورلشکری سنڈی گندم کی فصل کی سخت ترین دشمن ہیں لہذا انکا بروقت تدارک ضروری ہے لشکری سنڈی کے جسم پر دھاریاں ہوتی ہیں اور پتے کی نچلی سطح کے ساتھ ہزاروں کی تعداد میں چمٹی رہتی ہیں اور لشکر کی شکل میں ایک کھیت سے دوسرے کھیت میں منتقل ہوتی ہیں۔لشکری سنڈی کو کنٹرول کرنے کے لئے تصدیق شدہ موثر دوائی کا بروقت سپرے کیا جائے تاکہ انکا تدارک ممکن ہوسکے جبکہ زرد کنگی کی بیماری کا حملہ عام طور پر پنجاب کے شمالی اور کچھ وسطی اضلاع راولپنڈی تا فیصل آباد میں زیادہ ہوتا ہے پچھلے سالوں میں بارانی علاقوں کلرسیداں روات کہوٹہ گوجرخان مندرہ راولپنڈی اسلام آباد،فتح جنگ چکوال،حسن ابدال،نوشہرہ اور پشاور وغیرہ میں اسکاحملہ زیادہ ہوا ہے عام طور پر اس کاحملہ پتوں پر ہی ہوتا ہے جبکہ انتہائی شدید حملے کی صورت میں سٹے بھی متاثر ہوتے ہیں اس کی پہچان یہ ہے کہ پودے کے پتوں پر زرد رنگ کے چھوٹے چھوٹے دھبے متوازی قطاروں میں یا لائنوں میں نظر آتے ہیں گندم کی فصل پر مندرجہ بالا بیماریوں کے حملہ کی صورت میں کیمیائی زہروں کا استعمال محکمہ زراعت توسیع و پیسٹ وارننگ کے مقامی فیلڈ عملہ کے مشورہ سے کرنا چاہیے کسان سنی سنائی باتوں اور غیر مستنند نسخوں پر ہرگز عمل نہ کریں عام طور پر دیکھنے میں آتا ہے کہ بازاروں میں جگہ جگہ دوکانوں میں مختلف اقسام کی کیمیائی اسپرے والی ادویات دستیاب ہوتی ہیں جنکی اصل اور نقل میں فرق کرنا ایک عام کسان کے لیے مشکل ہوتا ہے لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور محکمہ زراعت سے تصدیق شدہ اسپرے والی خالص ادویات کسانوں کو مہیا کرنے کے لیے یونین کونسل سطح پرخصوصی مراکز قائم کیے جائیں کیونکہ اس اقدام سے بازاروں میں کھلے عام جعلی کیمیائی زہروں والی ادویات کی روک تھام میں بھی کافی حد تک مدد ملے گی دوسری اہم بات یہ کہ حکومت کو ان اسپرے والی ادویات پر کسانوں کو خصوصی ڈسکاؤنٹ دینا چاہیے کیونکہ آئے روز ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے سے گندم کے کھیت کی تیاری پر اٹھنے والے اخراجات کے تخمینے سے کسان پہلے ہی خاصے پریشان ہیں خطہ پوٹھوہار میں فروری کے مہینے میں جب دھوپ تواتر سے نکلی ہو ہرسو گندم کی فصل بڑھوتری کے عمل سے گزر رہی ہے اور وقفے وقفے سے بارشوں کے سلسلوں کی آمد سے اس سال بھی گندم کی بہترین پیداوار متوقع ہے گندم کی فصل کے پکنے کی ابتدائی علامات میں پتوں،تنے اور سٹے کا رنگ سبز سے سنہرا پیلا پڑنا اور مڑنا شامل ہے خطہ پوٹھوہار میں گندم کی کٹائی اپریل کے تیسرے ہفتے میں شروع ہوجاتی ہے جبکہ گندم کی گہائی مئی کے پہلے ہفتے تک مکمل کرلی جاتی ہے البتہ اگر اس دوران بارشیں شروع ہوجائیں تو کٹائی کا عمل سست روی کا شکار ہوجاتا ہے مناسب وقت پر کٹائی گندم کو ذخیرہ کرنے کے لیے جستی چادر کے بنے انبار کی کی مکمل صفائی کرکے اس میں گندم سٹور کریں اور 15بیس من تک کے حساب سے 2 یا 3 گولی ایلومینیم فاسفیٹ تر کپڑے میں باندھ کر انبار میں وقفے وقفے پر رکھ دیں اور 25 سے 30دن کے دورانیے سے سٹور کوچیک کرتے رہیں۔جولائی اور اگست کے مہینوں میں تواتر کے ساتھ گودام چیک کرتے رہیں کیونکہ اس دوران نمی کیوجہ سے زخیرہ شدہ گندم کو مختلف بیماریاں لگنے کا امکان رہتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں