معروف صحافی اور شاعر انوار فطرت کہتے ہیں کہ پوٹھوہار وہ جگہ ہے جہاں زندگی نے اپنا اولین گیت گایا۔ خطہ پوٹھوہار کی پانچ لاکھ سال قدیم تاریخ کو انجینئر مالک اشتر نے اس مضمون کی صورت میں گویا ایک سمندر کوزے میں بند کردیا ہے۔ انجینئر مالک اشتر ایک کتاب ’’ٹیکسلا ٹائمز‘‘ کے مصنف بھی ہیں۔ آپ اس خطے کی تہذیب و تاریخ پر نہ صرف گہری نظر رکھتے ہیں بلکہ تاریخ کے کئی کردار انہوں نے اپنے افسانوں میں زندہ کئے ہیں۔ تاریخ کو حال میں لا کر بیان کرنے کا ملکہ مالک اشتر کا خاصا ہے۔
پوٹھوار کی سرزمین جغرافیائی طور پر چار اطراف سے قدرتی حصار میں گھری ہوئی ہے۔مشرق میں دریائے جہلم اس کی حدود متعین کرتا ہے اور مغرب کی جانب ہمالیہ کی برف پوش چوٹیوں سے پھوٹنے والا مہان دریا سندھو(سندھ) صدیوں سے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے،انہی دو دریاؤں کے درمیان کا علاقہ دوآبہ سندھ ساگر کے نام سے مشہور ہے۔شمال کی جانب کالا چٹا پہاڑ اور مارگلہ کے پہاڑی سلسلے ہیں جبکہ جنوبی سمت میں کوہستانِ نمک سینہ تانے کھڑا ہے اس طرح درمیان میں جو قطعہ ارض وجود میں آتا ہے وہ سطح مرتفع پوٹھوار کہلاتا ہے۔
دفاعی نکتہ نظر سے اہم ان قدرتی رکاوٹوں نے اس خطے میں انسانی آباد کاری کی راہ میں اہم کردار ادا کیا ہے یہی وجہ تھی کہ سطح زمین کی بلندی، موافق موسمی حالات اور جنگلات کی کثرت نے قبل از تاریخ کے انسان کو یہاں بود و باش اختیار کرنے پر مجبور کیا۔یوں جنگلی حیات،وافر پانی کی موجودگی اور وسیع و عریض چراگاہوں کی وجہ سے زرعی معاشرے کی بنیاد پڑی۔
1928ء میں جیولاجیکل سروے آف انڈیا کے سربراہ مسٹر ڈی این واڈیا اور1930ء میں ژیل کیمرج ایکسپی ڈیشن نے دریائے سواں کی پٹی کے ساتھ قدیم دور کے پتھر کے تراشیدہ اوزار اور ہتھیار دریافت کیے جرمن محقق ڈی ٹیرا اور پیٹرسن نے بھی یہاں قدیم ترین انسانی عہد کا سراغ لگایا۔انہوں نے چونترا،اڈیالہ،ملک پور اور روات کے مقامات سے پتھر کے دور کے تقریباً تین لاکھ سال قدیم سنگی کلہاڑیاں ور تیز دھار شیشے دریافت کیے۔ڈاکٹر ڈی ٹیرہ کی رائے کے مطابق وادی سواں کی تاریخ بابل، نینوا، وادی سندھ، مصر اور یونان کی تہذیبوں سے بھی ہزاروں سال قدیم ہے۔
انہوں نے روات کے قریب سے دریافت ہونے والی دو انسانی کھوپڑیوں پر تحقیق کی۔انHomo Sapiens کا تعلق پتھر کے جدید دور سے بتایا جاتا ہے یہ ڈھانچے5 سے10 ہزار سال قدیم ہیں۔
1968ء میں آرکیالوجی آف پاکستان کے محکمے نے ایم اے حلیم کی رہنمائی میں ٹیکسلا میں سرائے کھولا کے قریب کھدائی کی اور ماقبل از تاریخ دور کا پتہ لگایا دریافت شدہ برتنوں اور ہتھیاروں پر تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ3100 قبل میح میں یہاں انسانی آبادی موجود تھی۔اس کے علاوہ ٹیکسلا میوزیم کی شمالی سمت میں دو فرلانگ کے فاصلے پر واقع ہتھیال نامی مقام سے مٹی کے ایک ٹیلے کی کھدائی کے دوران2800 ق م سے2400ق م کے قدیم کوٹ ڈجین عہد کے آثار دریافت ہوئے ہیں جبکہ اوپر والی تہہ کا تعلق1200ق م سے800ق م کے گندھارا گورستانی عہد سے ہے۔
پوٹھوار کی مختلف وجہ تسمیہ بیان کی گئی ہیں۔بعض محققین بشمول ڈی این واڈیا کی رائے میں یہ’’پٹھ آر‘‘ کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔’’پٹھ‘‘ بمعنی پیٹھ اور’’آر‘‘ مثل کے معنی میں آیا ہے یعنی پیٹھ کی طرح کا ابھار۔ایک روایت یہ بھی ہے کہ لفظ پوٹھوار’’پوپ ہار‘‘ سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے’’پھولوں کا ہار‘‘۔جب پرتھوی راج،شہاب الدین غوری کی افواج کا غزنی کی جانب تعاقب کرتے ہوئے پشاور تک گیا اور واپسی پر پوٹھوار سے گزر ہوا تو پھولی ہوئی سرسوں اور کھلے ہوئے خودرو پھول دیکھے تو بے ساختہ کہہ اٹھا ’’ایں ملک پوپ ہار است‘‘ یعنی یہ پھولوں کا دیس ہے۔ یہ خطہ’’پوٹا‘‘ دیوتا کی پرستش کے حوالے سے بھی مشہور تھا اس مناسبت سے اس کا نام پوٹھوار پڑ گیا ہوگا اس خطے میں بہنے والے بعض ندی نالوں کا رخ مشرق سے مغرب کی بجائے مغرب سے مشرق کی سمت ہے۔ شاید اس وجہ سے بھی پُٹھا(الٹا) اور ہاڑ(ندی نالے) کی باہمی اصطلاح پوٹھوار کے نام کی وجہ بن سکتی ہے۔
یہاں بہنے والے مشہور دریاؤں میں سواں،کالس اور ہرو قابل ذکر ہیں جب کہ ندی نالوں کے حوالے سے نالہ لنگ،نالہ کورنگ،نالہ سرین،نالہ لئی،کس گلیانہ،نالہ دھمرا،نالہ کانسی وغیرہ کے نام گنوائے جاسکتے ہیں۔
خیال ہے کہ برصغیر کا قدیم ترین تہذیبی خطہ ہونے کے ناطے پوٹھوار سے ہی زراعت کا آغاز ہوا۔اس حساب سے سب سے پہلے گندم وغیرہ یہیں کاشت کی گئی تھی۔پیداوار کے لحاظ سے باجرہ کی فصل دوسرے نمبر پر ہے۔مونگ،ماش،مسور،موٹھ،چنے اور تل کی کاشت بھی ہوتی ہے جبکہ روغن دار اجناس میں سرسوں اور تارا میرا مشہور ہیں۔ تاہم مکئی کشمیر سے یہاں لا کر متعارف کرائی گئی تھی۔
خطہ پوٹھوار میں مختلف اقسام کے درخت اگتے ہیں، کبھی یہاں گھنے جنگلات کی بھرمار تھی۔ بابر نے ہاتھی اور گینڈے کے شکار کا تذکرہ کیا ہے
۔سکندر اعظم نے بھی ان جنگلات میں گینڈے کا شکار کھیلا تھا۔ تاہم آج پائے جانے والے درختوں میں شیشم، بکائن(دھریک)،بیری، کہو(جنگلی زیتون)،ڈھاک،اوکانہہ جبکہ پھلدار درختوں میں آم، لوکاٹ، جنگلی انار وغیرہ مشہور ہیں۔ چیڑ کے درخت پہاڑوں پر کثرت سے اگتے ہیں۔
ہندو اور بدھ مت کی عبادت گاہوں کے اطراف میں تالابوں کے کنارے اور قدیم راستوں کے ساتھ سستانے کیلئے برگد اور پیپل کے درخت بھی کثیر تعداد میں لگائے گئے۔درحقیقت یہ درخت وسطی ہندوستان سے لائے گئے تھے چونکہ ان کے پتے چوڑے ہوتے ہیں اس لئے انہیں پانی کی وافر مقدار درکار ہوتی ہے جبکہ پوٹھوار کو بارانی خطہ ہونے کے ناطے بارشوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے اس لئے قدرتی طور پر یہاں چھوٹے پتوں والے درختوں کی بہتات ہے۔پیپل اور برگد کے درخت،مذہبی تقدس کی وجہ سے پوٹھوار میں متعارف کرائے گئے تھے۔جنگلات کی موجودگی نے جنگلی حیات کو پھلنے پھولنے میں خوب مدد دی۔