پوٹھوار کا نامور شعر خواں چوہدری اکرم گجر

اصر بشیر راجہ

خطہ پوٹھوار کو شہیدوں اور غازیوں کی سر زمین کہا جاتا ہے سب سے زیادہ نشانِ حیدر حاصل کرنے کا عزازبھی اِسی سرزمین کو حاصل ہے اس دھرتی کے سپوتوں نے ہر مکتبہ فکر مین اپنی حلاحیتوں کا لوہامنوایا ہے جہاں جہاں اس زمین کے لہلہاتے کھیت پہاڑ اور بہتے چشمے اپنی خوبصورتی کی وجہ سے مشہور ہیں وہاں پوٹھوار کے لوک فنکار بھی اپنی مثال آپ ہیں لوک فنکار کسی بھی خطہ زمین کی پہچان ہوا کرتے ہیں

خطہ پوٹھوار میں لوک موسیقی کی ابتداء میں واز بولے جاتے تھے یہ قدیم پوٹھوار کا ثقافتی ورثہ تھا اب واز صرف تھوہا خالصہ میں حضرت تاج الدین نوشاہی کے عرس کے موقع پر سننے کو ملتے ہیں راجہ خوشحال خان آ ف چرا ہ نے اِسی ثقافت کو نئے انداز کے ساتھ گھڑے اور ستار کے ساتھ متعارف کرایا جسے شعر خوانی کا نام دیا گیا راجہ خوشحال خان کے بعد صدیق اعوان رزاق عارف ‘ا سین‘ اکرم گجر‘ راجہ عابد‘ راجہ ساجد اور دیگر نے اس فن کو اوج کمال پر پہنچایا چوہدری محمد اکرم گجر کا تعلق تحصیل راولپنڈی کے قصبہ توپ مانکیالہ سے تھا

انہوں نے پرائمری کلاس سے شعر خوانی کا سلسلہ شروع کیا جو کہ انکی وفات تک جاری رہا چوہدری اکرم گجر نے طویل عرصہ تک شعر خوانی کی جو کہ ریکارڈ مدت ہے چوہدری محمداکرم نے بچپن میں شعر خوانی کی ابتداء اپنے ہی گاؤں کے استاد رحم علی سے شاگری کی صورت میں کی بعد از اں اپنے شوق کی تکمیل کے لئے تھوہا خالصہ میں سائیں محمد عارف کے زیر سایہ رہے

مرحوم چوہدری محمد اکرم کے اچھو تے انداز اور منفرد گائیکی نے جلد انہیں عوام میں مقبول کر دیا انکی محافل میں ہزاروں عوام موجود ہوتی جو رات بھر انکے شعر سنتے چوہدری محمد اکرم گجر نے فن شعر خوانی میں نئے انداز اور طرز کو متعارف کرایا نوشاہی ہی طرز پر شعر خوانی انہی کی ایجاد کردہ ہے چوہدری محمد اکرم نے سائیں احمد علی ایرانی انور فراق دائم اقبال اور دیگر شعراء کا کلام خوبصورت انداز میں عوام تک پہنچایا

جو کہ اس سے پہلے شعر خوانی کا حصہ نہ تھا حمد نعت اور سیف الملوک کی ادائیگی میں انہیں ایک منفرد مقام حاصل تھا راجہ خوشحال خان نے جس فن کی بنیاد رکھی چوہدری محمد اکرم نے اپنی انتھک محنت اور لگن سے اسے عروج پر پہنچا دیا چوہدری محمد اکرم نے اپنی شندگی کا زیادہ حصہ تھاہا خالصہ میں حضرت تاج الدین نوشاہی کے سجادہ نشین سائیں محمدعارف کے زیر سایہ گزارا آپ درگاہ پر متواتر حاضری دیتے

اور عرس کے موقع پر محفل شعر خوانی میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے موجودہ سجادہ نشین سائیں محمد اخلاق بھی فن شعر خوانی کے دلدار ہیں اور چوہدری اکرم مرحوم کے فرزند چوہدری اختشام اکرم اپنے والد کی جانے والی شمع کو لیکر جانب منزل رواں دواں ہیں

چوہدری محمد اکرم مرحوم وسیع حلقہ احباب رکھتے تھے محمود حسین یونس میوزک صوفی امجد ھسین سائین محمد اخلاص تھوہا خالصہ حاجی غلام رسول منجھوٹھہ حاجی عمر فاروق تہاور‘ محمد رمضان ستار نواز چوہدری محمد خان‘ جاویدساقی چوہدری محمد اکرم گجر کے قریبی رفقاء میں شامل تھے خطہ پوٹھوار کا یہ فنکار 04فروری 2000کو اپنی رفقاء کے کندھوں پر سوار ہو کر وادی خاموشاں میں چلا گیا

جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا مرحوم کی برسی ہر سال 15مئی کو توپ مانکیالہ میں منائی جاتی ہیں جس میں محفل مشاعرہ وشعر خوانی کی جاتی ہیں
بقول انور فراق
خون جگر نال قلم جو لکھ جاندا اورمحبت دا رہسی عنوان زندہ
صاحب دلاں دی نہیں داستان مکدی رہسن حشر تک حشر سامان زندہ
فضاواں وچ ابر دے روپ انداز پتلے خاک دے رہسن ارمان زندہ
انور موت نہیں انہاں نوں مار سکدی رہسن سخن نالے سخندان زندہ

اپنا تبصرہ بھیجیں