پولیس کی بے حسی اشفاق شاہ کو نگل گئی

تھانہ جاتلی کے رہائشی سید اشفاق شاہ کی زندگی کا سکون اس وقت چھن گیا جب ان کی گائے چوری ہوگئی تقریبا سات سے آٹھ بچوں کی گزر اوقات اسی گائے کے سر تھی گاؤں کے اس غریب کے لیے یہ گائے صرف ایک جانور نہیں بلکہ روزگار اور عزت نفس کا سہارا تھی جو چوروں نے چوری کی تو اشفاق شاہ نے انصاف کی تلاش میں تھانہ جاتلی پولیس کے دروازے کھٹکھٹائے تو وہاں کرپشن اور بے حسی نے ان کا استقبال کیا۔ مقدمے کے تفتیشی افسر وجاہت شاہ پر الزام ہے کہ اس نے مدعی سے دس سے پندرہ ہزار روپے رشوت لی مگر مقدمہ درج نہ کیا اانصاف نہ ملا تواشفاق شاہ نےکھلی کچہریوں کے جادو کو سہارا جانا کئی بار حکام بالا کی کھلی کچہریوں کا رخ کیاوہ کبھی روات کبھی شاہ باغ تو کبھی گوجر خان مندرہ جاتا رہا اپنی فریاد سنانے کی کوشش کی اور تقریبا ایک ماہ بعد بالآخر ایف آئی آر تو درج کرلی گئی لیکن تفتیشی افسر نے ایک بار پھر ملزمان کو گرفتاری کے بجائے ریلیف دیا اور انہیں ضمانت دلوا دی
راستے میں رکاوٹیں بڑھتی گئیں، اور انصاف مزید دور ہوتا گیا گزشتہ روز
رات گئے اشفاق شاہ نے راقم سے ٹیلی فونک گفتگو میں شکوہ کیا کہ میرا مسلہ جوں کا توں ہے پہلے تفتیشی کہتا تھا کہ تمھارا ملزم پکڑوں گا اب کہتا ہے:
“جاؤ، جو کرنا ہے کر لو۔”
یہ وہ جملہ تھا جس نے اشفاق شاہ کے حوصلے کو زخمی کر دیا اور اگلے ہی دن وہ اپنی شکایت لے کر آر پی او آفس جانے کے لیے گھر سے نکلے۔


بدقسمتی سے راستے میں تھانہ روات کی حدود میں ٹریفک حادثہ پیش آیا۔ اشفاق شاہ موقع پر ہی دم توڑ گئے، جبکہ ان کے ہمراہ موجود سید اخلاق شاہ اور سید مسعود شاہ شدید زخمی ہو گئے۔ یوں ایک شخص جو اپنی گائے کے لیے انصاف ڈھونڈنے نکلا تھا، خود زندگی سے محروم ہوگیا۔


واقعہ پولیس کے اس فرسودہ اور کرپٹ نظام پر ایک سنگین سوالیہ نشان ہے جس میں انصاف خرید و فروخت کی چیز بن چکا ہے۔ تفتیشی افسر کا رشوت لینا، مدعی کو دھتکارنا، ملزمان کو تحفظ دینا اور شاکی کو بے یار و مددگار چھوڑ دینا اس نظام کا اصل چہرہ ہے۔
جب انصاف دینے والے ہی ظالم کے محافظ بن جائیں تو عام شہری کے پاس کیا راستہ بچتا ہےموت ایک اٹل حقیقت ہے، اس سے کسی کو انکار نہیں۔ لیکن اشفاق شاہ کی موت ایک حادثہ نہیں بلکہ ایک پورے نظام کی ناکامی ہے۔ وہ سسٹم جو شہری کو انصاف کے بجائے ذلت دیتا ہے، وہ پولیس جو تحفظ دینے کے بجائے استحصال کرتی ہے، اور وہ حکومتی ادارے جو فریاد سننے کے بجائے خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔سوال یہ ہے: اشفاق شاہ کی موت کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ وہ ٹریفک حادثہ، یا وہ پولیس کا کرپٹ نظام جس نے انہیں انصاف کے لیے دربدر کر دیا؟
اشفاق شاہ کی موت نے انصاف کے نظام پر سوال کھڑا کر دیا ہے:کیا یہ حکومت اپنے شہریوں کو انصاف جیتے جی دے گی، یا صرف مرنے کے بعد ان کے لیے اخباری سرخیوں میں جگہ محفوظ رکھے گی؟