پولیس اہلکارگوجرخان کی بدنامی کا باعث بن گئے

عبدالستار نیازی‘ نمائندہ پنڈی پوسٹ
تبدیلی کے اثرات عوام تک پہنچنے میں کافی وقت لگے گا، مگر عوام چونکہ خود تبدیل ہونا گناہ سمجھتی ہے اس لئے ایسی تبدیلی کی خواہشمند ہے جو راتوں رات آ جائے، ایسی جادو کی چھڑی ہو، اللہ دین کا چراغ ہو جس کو رگڑنے سے چمتکار ہو جائے اور سارا ملک سدھر جائے، ہر ایک شخص اپنے گریبان میں جھانکے تو ہم سب اس موجودہ تباہی کے ذمہ دار ہیں، دو نشان حیدر کا تاج سر پہ سجائے، درجنوں شہدائے پاکستان اور غازیان پاکستان کو اپنی مٹی کے اندر سموئے یہ دھرتی صرف گوجرخان کی دھرتی ہے، اس دھرتی کے سپوتوں نے اس دھرتی کا نام پوری دنیا میں روشن کیا، تاریخ جب بھی پڑھی جائے گی تو گوجرخان کا نام سنہری حروف میں لکھا ہوا ہر قوم ہر صدی میں پائے گی، پاکستان بنانے اور پاکستان بچانے میں اس دھرتی کے سپوت پیش پیش رہے، خود میرے نانا مرحوم شیر احمد آرمی میں ملازمت کرتے تھے اور دوران جنگ قیدی بھی بنے تھے، ہماری رگوں میں پاکستانیت کا خون دوڑتا ہے اور ہم اس دھرتی کے خلاف کوئی لفظ نہیں سن سکتے، لیکن کچھ چور اُچکے، فراڈی، زانی، شرابی، رہزن، ڈکیت، منشیات فروش اس دھرتی کا نمک کھا کر نمک حرامی کرتے پائے جاتے ہیں، بالکل کچھ ایسی ہی صورتحال کا سامنا دھرتی گوجرخان کے باسیوں کو ان دنوں ہے، عوام تو تبدیلی چاہتی ہے لیکن اداروں میں موجود کالی بھیڑیں تبدیلی کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچتے دیتے کیونکہ اگر تبدیلی آجائے تو ان کا مال پانی بند ہوجاتاہے، اس ہفتے کی ٹاپ سٹوری میں تھانہ روات اور تھانہ گوجرخان کے پولیس اہلکاروں کے کارنامے سرفہرست ہیں،ان میں کتنی سچائی ہے؟ کیا ان کے اوپر لگائے گئے الزامات سچے ہیں؟ جھوٹے ہیں؟ ان کا فیصلہ انکوائری رپورٹ اور تفتیش کرے گی، تھانہ روات کے اہلکار مقدمہ میں گرفتار کرکے پیش عدالت کر دیئے گئے، جبکہ تھانہ گوجرخان کے اہلکار معطل کرکے انکوائری کی نذر کر دیئے گئے، تھانہ روات میں تعینات تینوں ملازمین کا تعلق گوجرخان کے مختلف علاقوں سے ہے، دونوں واقعات سے ساری تحصیل آگاہ ہے، تحریر کے ذریعے یہ احساس دلانا مقصود ہے کہ آپ وردی کا استعمال کرکے ناجائز کام کریں، ادارے کے ماتھے پر کلنک ملیں، اپنے اور اپنے خاندان کی بے عزتی کرائیں، دھرتی ماں پر آپ بوجھ نہیں تو کیا ہیں؟ تھانہ روات کے تین اہلکاروں نے چوتھے دوست کے ساتھ مل کر مبینہ طور پر لڑکی کو زیادتی کا نشانہ بنایا، لڑکی نے سی پی او راولپنڈی کو درخواست دی جس پر ایکشن لیتے ہوئے تھانہ روات نے چار نامزد ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا، تین اہلکاروں میں محمد نصیر سکنہ سکھوتحصیل گوجرخان، راشد منہاس سکنہ گوجرخان، محمد عظیم سکنہ موہڑہ کنیال تحصیل گوجرخان شامل ہیں، اس واقعے کا نوٹس آئی جی پنجاب نے لیا اور ملوث ملزمان کو قرار واقعی سزا دینے کیلئے سی پی او، آر پی او راولپنڈی کو ہدایات جاری کیں، وزیراعلیٰ کے مشیر شہباز گل نے بھی لڑکی کے گھر جاکر ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی، تینوں اہلکاروں کو عدالت میں پیش کر کے ریمانڈ حاصل کیا گیا، انکوائری اور تفتیش میں کیا بات سامنے آتی ہے یہ کہنا قبل از وقت ہے لیکن پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا نے اس کیس کو ہائی لائٹ کیا اور پوری دنیا میں پنجاب پولیس کا غلط تاثر گیا کہ عوام کے محافظ عوام کی عزتیں لوٹ رہے ہیں، کیا یہ تحصیل گوجرخان کی بے عزتی نہیں ہے؟ ان کا نام ولدیت تو ان کی ذات تک محدود ہے لیکن جب تحصیل گوجرخان لکھا جاتاہے تو گوجرخان کے ماتھے پہ داغ لگتاہے، والدین کو اولاد کی تربیت کرتے ہوئے ان کو ہمیشہ حلال کھلانے اور کھانے کی نصیحتیں کرنی چاہئیں، حرام جس منہ کو لگ جائے اس کیلئے حلال حرام کی تمیز ختم ہوجاتی ہے اور ظلم یہ کہ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں ایسے گھناؤنے فعل کا ارتکاب اور زیادہ قابل گرفت ہے، دوسری جانب تھانہ گوجرخان کے پولیس اہلکاروں اور مزدورں کے مابین جو معاملہ پیش آیا اس واقعہ کے بعد کافی ٹال مٹول سے کام لیا گیا، میڈیا کے ہائی لائٹ کرنے پر چار یوم بعد سی پی او راولپنڈی نے اہلکار معطل کر کے انکوائری کیلئے احکامات جاری کئے، معطل اہلکاروں میں عظیم، ذوالقرنین، مبین اور عدنان شامل ہیں،اب اس انکوائری کا کیا نتیجہ نکلتا ہے یہ خدا ہی بہتر جانتاہے، کیا مزدور اور ٹھیکیدار جن کے ساتھ معاملہ پیش آیا وہ اہلکاروں سے صلح صفائی کر کے معاملہ دفن کر دیں گے یا یہ انکوائری منطقی انجام تک پہنچے گی، یہ بھی سوال اپنی جگہ مسلم ہے، اس واقعہ میں بھی گوجرخان کا نام استعمال ہوا، غلط کام پولیس ملازمین کرتے ہیں اور دھرتی گوجرخان کی بدنام ہوتی ہے، ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے حکومت کو اصلاحات کرنا تھیں، لیکن حکومت تاحال اس معاملے میں سنجیدہ نہیں ہے، کیا وجہ ہے کہ تین آئی جی تبدیل کرنے کے باوجود تبدیلی سرکار اس معاملے میں مکمل فیل ہے، اپوزیشن میں ہوتے ہوئے عمران خان اور اس کے حواریوں نے بہت نعرے لگائے کہ پنجاب پولیس نواز شریف اور شہباز شریف کی غلام بن چکی ہے ہم اسے ٹھیک کریں گے، لیکن سب دعوے سب وعدے بے سود دکھائی دے رہے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت سنجیدگی سے اس معاملے کو ہینڈل کرے اور اصلاحات کرے تا کہ کسی سرکاری ملازم کو ایسے کام کرنے کی جرات نہ ہوسکے اور نہ ہی دھرتی ماں کانام بدنام ہو۔ والسلام

اپنا تبصرہ بھیجیں